میری اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مامور ہے۔اونٹنی مسلسل چلتی رہی۔سب کی آنکھیں اسی کی طرف لگی ہوئی تھیں۔دلوں میں ایک ہی شوق سمایا ہوا تھا کہ کسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کا شرف حاصل ہو جائے۔جب اونٹنی ایک گھر کے سامنے سے گزر جاتی تو اس گھر والے غمگین و نااُمید ہو جاتے اور اس سے اگلے گھر والوں کو اُمید کی کرِن نظر آنے لگتی،لیکن اونٹنی مسلسل اپنے حال میں مست چلی جا رہی تھی۔لوگ بھی اس کے پیچھے رواں دواں تھے ہر ایک کے دل میں یہ شوق تھا کہ وہ اس خوش قسمت کو دیکھیں کہ جس کے نصیب میں یہ دولت آتی ہے۔ہوا یہ کہ اونٹی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کیسامنے کھلی فضا میں بیٹھ گئی۔اس موقع پرحضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔فورا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا اور اتنے خوش ہوئے گویا دنیا کے خزانے ہاتھ لگ گئے۔آپ کا سامان اٹھایا ور اپنے گھر کی طرف چل دیئے۔
حضرت ایوب اانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس یہ وہ مکان تھا جس کو تقریباً ایک ہزار سال قبل جناب رسالت مآب ۖ کی دنیاپر تشریف کلانے کے تعمیر کروایا گیا تھا ۔ کس نے تعمیر کروایا تھا؟ کیوں تعمیر کروایا تھا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری سے تقریبا ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع خمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار کتب سماوی کے عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔
یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہ کے ساتھ آئیے علماء میں سے ایک عالم تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔
پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو اس کے ہمرا ہی علماء نے جو کتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے پڑھی تھیں، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔
یہ سن کربادشاہ تُبّع خمیری نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو گی اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔
وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا؟سنئیے اور عظمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھئے:
کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے نبی آخرزمان سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف۔۔اما بعد: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب آپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمائیے گا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کیجئے گا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔
شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے نسل در نسل محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ تقریبا ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی گھاٹی سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آ رہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی۔
وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ خدا کی قدرت دیکھئے جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع خمیری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا، اسی گھر کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہ یمن تبع خمیری کا خط دے آو۔۔ جب ابو لیلٰی حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع کو آفرین و شاباش ہے۔بشکریہ
المواہب اللدنیہ اردو مترجم صفحہ 201 از شارح بخاری امام علامہ احمد بن محمد قسطلانی