واشنگٹن (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے یمن میں لڑائی میں الجھے ہوئے فریق سے کہا ہے کہ امن مذاکرات کو مزید ایک ہفتے کے لیے بڑھایا جائے، ایسے میں جب ہفتے کے روز صنعا کی حکومت نے مذاکرات سے الگ ہونے کا اعلان کیا۔
یہ مطالبہ اسماعیل الدین شیخ احمد کی جانب سے سامنے آیا ہے، جس میں، بقول اُن کے، ’’بنیادی طریقہٴ کار پر مبنی تجویز شامل ہے جس کی مدد سے حکومتی افواج اور ایران کی پشت پناہی والے شیعہ باغیوں کی لڑائی، جسے تقریباً دو سال ہو چکے ہیں، کا حل نکل آئے گا‘‘۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس میں کم ازکم 6500 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جس میں 3200 سے زائد سولین ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
ایلچی نے ٹوئٹر پر تحریر کیا کہ ’’میں دونوں وفود سے مل چکا ہوں (اور) ایک ہفتے کی میعاد بڑھانے کی درخواست کی گئی ہے‘‘۔ تاہم، حکومت یا حوثی باغی رہنماؤں کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، جس کے مذاکرات کار آخری بار اپریل میں کویت میں ملے تھے، جس کا مقصد امن سمجھوتا تلاش کرنا تھا۔
امن مذاکرات سے علیحدگی کے اعلان سے دو روز قبل حوثی رہنماؤں نے سابق صدر علی عبداللہ صالح کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک اتحادی حکومت تشکیل دے رہے ہیں، جس کا مقصد حوثی حکمرانی کو جائز قرار دینے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کے ترجمان نے حوثیوں کی اس سوچ کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یکطرفہ فیصلہ امن عمل کے لیے سازگار نہیں ہوگا، جب کہ اس سے حاصل ہونے والی قابلِ قدر پیش رفت کو خطرہ لاحق ہوجائے گا‘‘، جو صورت کویت کے مذاکرات میں پیدا ہوئی تھی۔
اقوام متحدہ کی سرپرستی میں گذشتہ سال امن بات چیت کے دو دور ہوئے، جس میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا، جب کہ گھمسان کی لڑائی چھڑنے کے نتیجے میں دسمبر میں کویت میں ہونے والے مذاکرات آگے نہ بڑھ سکے۔