اسلام آباد (جیوڈیسک) یمن میں ایک طرف جہاں جھڑپوں میں تیزی آرہی ہے، تو وہیں دوسری طرف مسئلے کے حل کے لیے پاکستان اور ترکی نے سفارتی کوششیں تیز کردی ہیں۔
یمن تنازع کے حل کے لیے سفارتی کوششوں کا آغاز وزیراعظم نواز شریف کے گزشتہ ہفتے دورہ ترکی سے ہوا، جہاں انقرہ میں انھوں نے ترک صدر رجب طیب اردگان سے ملاقات کی۔
دونوں رہنمائوں نے ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے کے لیے سفارتی کوششوں پر اتفاق کیا اور مشکل گھڑی میں سعودی عرب کا ساتھ دینے اور اس کی علاقائی سالمیت کا مل کر دفاع کرنے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم نوازشریف کے دورہ ترکی کے بعد کل سعودی ولی عہد اور وزیر داخلہ پرنس محمد بن نائف انقرہ پہنچے اور ترک صدر طیب اردگان سے ملاقات کی اور ان سے یمن تنازع کے پر تبادلہ خیال کیا۔
وزیراعظم نواز شریف اور سعودی وزیر داخلہ سے ملاقاتوں کے بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردگان آج ایران جائیں گے اور ایران کے صدر حسن روحانی کے علاوہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقات کریں گے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کے دورے کے دوران معاشی تعلقات سمیت خطے کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا، تاہم یمن تنازع کے حل کے لیے مختلف تجاویز بھی زیر غور آئیں گی۔
اس سے پہلے ترکی واضح طور پر حوثی باغیوں کی مدد کرنے پر ایران کو تنقید کا نشانہ بناچکا ہے۔ ترک صدر کے دورے کے اگلے روز یعنی بدھ کو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظرف اسلام اباد آرہے ہیں۔ جبکہ ترکی کے وزیر خارجہ کی بھی اسی ہفتے کے اختتام تک اسلام آباد آئیں گے۔
ایک غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سے انتہائی قریبی تعلقات ہونے کے باوجود پاکستان نے اب تک سعودی قیادت میں یمن جنگ سے خود کو دور رکھا ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ وہ کسی ایسے تنازع میں نہیں پڑنا چاہتا جس سے فرقہ ورانہ تناؤ میں اضافے کا خدشہ ہو۔