یمن (اصل میڈیا ڈیسک) حملے سے قبل شہریوں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو وہاں سے نکل جانے کو کہہ دیا گيا تھا۔ اس ایئر پورٹ پر حوثی باغیوں کا قبضہ ہے اور ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان حملوں سے جانی یا پھر مالی نقصان کتنا ہوا۔
سعودی عرب کے حکومتی نشریاتی ادارے العربیہ کے مطابق سعودی عرب کی قیادت والے فوجی اتحاد نے 20 دسمبر پیر کے روز یمن کے دارالحکومت صنعا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کے لیے اس پر فضائی حملے کیے۔
سعودی قیادت والے عسکری اتحاد کا کہنا ہے اس حملے میں ہوائی اڈے پر موجود “درست فوجی اہداف” کو نشانہ بنایا گیا۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہوائی اڈے کی تنصیبات کو سرحد پار حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
العربیہ کے مطابق فوجی اتحاد نے حملے سے قبل ہی تمام شہریوں اور اقوام متحدہ کے امدادی کارکنوں پر زور دیا تھا کہ وہ اس علاقے کو خالی کر دیں۔ اس فضائی حملے سے ایئر پورٹ کو کیا نقصان پہنچا اس بارے میں ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ہے اور نہ ہی ہلاکتوں سے متعلق کوئی واضح اطلاعات فراہم کی گئی ہیں۔
سعودی اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں عسکری اتحاد نے چھ مقامات کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے مزید کہا، “ان اہداف کو تباہ کرنے سے ہوائی اڈے کی آپریشنل صلاحیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔” اس سے قبل اتوار کے روز اتحاد نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے ایئرپورٹ سے داغے جانے والے ایک ڈرون کو تباہ کر دیا جس کا مقصد سعودی سرزمین کو نشانہ بنانا تھا۔
یمن کے دارالحکومت صنعا کے ہوائی اڈے پر سعودی عرب کے علاقائی حریف ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کا کنٹرول ہے۔ حوثی باغی حالیہ برسوں میں سعودی عرب پر راکٹوں سے حملے کرتے رہے ہیں، تاہم اکثر ایسے حملوں سے نقصان بہت کم پہنچتا ہے۔
صنعا کا یہ ہوائی اڈہ پہلے سے ہی اقوام متحدہ کے زیر اہتمام انسانی امداد کی پروازوں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ عرب دنیا کے سب سے غریب ملک یمن سن 2014 میں خانہ جنگی کی لپیٹ میں آنے کے بعد سے ہی دنیا کے بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے۔
یمن میں گزشتہ پانچ برسوں سے جنگ جاری ہے جہاں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی بین الاقومی سطح پر تسلیم شدہ یمنی حکومت سے بر سر پیکار ہیں۔ سعودی اور علاقے کے دیگر اس کے اتحادی بھی اس جنگ میں حکومت کے حامی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں تقریبا ًدو کروڑ لوگ، یعنی ملک کی ایک تہائی آبادی، کو ہر طرح کی امداد کی سخت ضرورت ہے۔
حوثی باغیوں نے ستمبر 2014 سے ہی صنعا کو اپنے کنٹرول میں کر رکھا ہے اور سعودی عرب نے سن 2015 میں اس خوف کے تحت اس گروپ کے خلاف عسکری کارروائی شروع کی تھی کہ اگر اس نے احتیاطی تدابیر نہ کیں تو اس کے مفاد کو نقصان پہنچے گا اور ایران کو خطے میں مزید قدم جمانے کا موقع مل جائے گا۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان 2016 میں تعلقات منقطع ہو گئے تھے لیکن حالیہ مہینوں میں مشرق وسطیٰ کے دونوں اہم ملکوں کے نمائندوں نے اپنے متنازعہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بات چیت کی ہے۔