تحریر : سید ریاض جازب یمن کے حالات کے تناظر میں کئی بار لکھنے کے لیے قلم اٹھایا ،عنوان کی تلاش میں تھک کر پھر قلم رکھ دیا۔ کیونکہ Main title پر راقم کو شاید اتنا عبور نہیں ہے۔ اس لیے راقم یمن کے حوالے سے ذیلی مضمون یعنی In site Story کے لیے پھر سر گرداں رہا ۔ اور آج میں اسIn site Story کے عنوان کی تلاش میں کامیاب ہوگیا ۔ اوپر درج بالا عنوان تو آپ پڑھ چکے ہیں ۔ اب اس کے ذیلی موضوعات یا نقات پر آتے ہیں۔ گذشتہ روز اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کی تازہ ترین رپورٹ یمن کے تناظر میں آئی ہے ۔ اس رپورٹ کو ایک دوست نے میرے ساتھ شیئر کیا ہے۔ جس کے مطابق یمن میں اس وقت شدید ترین غذائی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ فوری طور پر اگلے چند دنوں میں صرف عدن ،یمنی شہر میں.000 105بے گھر افراد کے لیے خوراک کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے یمن کے کنٹری منیجر مسٹرکشیپ نے اعلان کیا ہے کہ ان کی ٹیم یمن کے ان بے گھر افراد میں غذائی قلت کے خاتمہ کے لیے خوراک تقسیم کرے گی ، لیکن غذائی قلت کا شکارلاکھوں لوگوں کو خوراک کی تقسیم کے حوالے انہیں چیلنجوں کا سامنا ہے۔ جس میں بگڑتی ہوئی سیکورٹی بھی شامل ہے ۔ ڈبلیو ایف پی کے نمائندے اور یمن کے کنٹری ڈائریکٹر نے تمام متحارب فریقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ تعاون کریں اور اس کی تقسیم کی اجازت دیں۔
یمن میں پرتشدد، واقعات اور براہ راست لڑائی کی وجہ سے نصف سے زیادہ آبادی کوغذائی قلت کا سامنا ہے۔ شہروں کے ساتھ دیہاتوں میں بھی یہ صورت حال گھمبیر ہے۔ لوگ یہاں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ یمن میں جاری متحارب گروپس کی لڑائی اور سعودی اتحادی حملوں سے ملک کا پورا انتظامی ڈھانچہ تقریبا مفلوج ہوگیا ہے۔ ایندھن، کی کمی کے علاوہ سرمایہ،کی گردش بھی رک گئی ہے۔ لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے جس قدر خوراک کی ضرورت ہے۔ وہ یہ خوراک خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔
Yemen Rebels
یمنی عوام چاہیے ان کا تعلق جس گروپ سے ہے۔ وہ جس بھی مسلک اور فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت شدید غذائی عدم تحفظ کا ،شکار ہیں۔یہ صورت حال تشویش کا باعث ہے۔ یمن میں لڑائی تیز ہونے سے پہلے گزشتہ چند دنوں میں خوراک کی تقسیم کچھ زیادہ دقت کے بغیر ہوتی ر ہی لیکن اب یہ کام آسانی سے ممکن نہیں رہا۔ سیکورٹی کی دگرگوں صورت حال کی وجہ سے لوگوں تک پہنچنے میں انتہائی مشکل پیش آرہی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ یمن اپنی غذائی ضرورت کا90 فیصد بیرون ملک سے فیصد درآمد کرتا ہے۔
موجودہ ضرورت حال کے پیش نظرتمام درآمد، رک گئیں ہیں۔ فوڈ امپورٹ نہ ہونے سے اور بھی غذائی قلت ہوگئی ہے۔ خاص طور پر کمزور طبقات خوراک کے حصول میں ناکام ہیں۔ لوگوں کی صلاحیت اس حوالے سے متاثر ہوئی ہے۔ شدید ترین لڑائی کی زد میں اکثر علاقوں میں دکانیں اور فوڈ بازار بند ہیں اور خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کی دستیابی و فراہمی ختم ہو چکی ہے۔ لوگ محفوظ مقامات پر رہنے پر زیادہ تر ترجیح دے رہے ہیں مگر ان کے پاس خوراک کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔اکثریت آبادی اگر متحارب گروپس کی لڑائی اور اتحادی حملوں سے بچ گئی تو وہ بھوک وپیاس یعنی غذائی قلت سے مر جائے گی ۔ اور یہ ایک بہت بڑا ،انسانی المیہ ہوگا۔ عالمی برادری کے لمحہ فکریہ بھی ہوگا۔
گزشتہ چند دنوں میں عالمی ادارہ خوراک، کو غذائی امداد کی تقسیم میں جو سب سے زیادہ مشکل پیش آرہی وہ سیکورٹی کے خراب حالات کے پیش نظربے گھر یمنی باشندوں کی تلاش اور انہیں مہاجرین کے کیمپ میں منتقل کرنے میں ناکام ہیں ۔ پھنسے ہوئے خاندانوں کو باحفاظت نکال کر انہیں محفوظ مقامات یعنی کیمپ میں منتقل کرنا ہے ۔منتقل کئے بغیر خوراک کی تقسیم صیح طرح سے ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ خوراک کی تقسیم کا، کام کیمپ میں آسانی کے ساتھ انجام پا سکتا ہے۔ اور ان کیمپوں میں دو سے تین ما ہ کا راشن سٹور ہوسکتا ہے۔
Yemen Child
اگر صورت حال اسی طرح کی رہی اور لڑائی میں وقفہ نہ آیا تو یمن کا منظر کچھ اس طرح کا ہوگا کہ عوام بھوک و پیاس اور بیماریوں سے مرجائیں گے۔ راقم نے یمن کے حالات کے تناظر میں لکھنے سے قبل یہ طے کیا تھا کہ اپنی تحریر میں یمن میں ہونے والی لڑائی ،حملوں میں متحارب گروپس کے بارے کوئی رائے نہیں دوں گا ۔ کون ظالم ہے کون مظلوم ، باغی کون ہیں،اوریمن میں حکومت کس کی ہے۔ پیچھے کے اصل عوامل کیا ہیں ۔کون سی قوتیں ہیں جن کے مفادات اس سے وابستہ ہیں۔
ان کا تعلق یمن کے اندرورنی گروہ سے ہے یا بیرونی طاقت سے ہے۔ اس سارے معاملے میں پاکستان کا ،کیا کردار ہے ۔وہ کردار جس کے ادا کرنے کامطالبہ سعودی اتحادی ممالک کرتے ہیں ۔ پاکستانی حکمرانوں کی خواہیش اور پارلیمنٹ کا فیصلہ کیا ہے۔کیونکہ ہر کوئی ان موضوعات پر طبع آزمائی کررہاہے ۔اور پورا زور،اس پر لگایا ہوا ہے۔
شاید انہیں یمن میں بچوں اور عورتوں کی ہلاکتوں کا احساس نہیں شاید انہیں یمن میں خطرناک حد تک پیدا ہونے والی غذائی قلت کا پتہ نہیں ۔پاکستان کا کردار ایک یہ بھی ہے کہ ہماری حکومت اس مسئلہ کے بارے بھی عالمی سطح پر کوشش کرے کہ یمن میں بچوں اور عورتوں کو جنگ کا ایندھن بننے سے روکا جائے اور وہاں خوراک کی کمی کے لیے اپنا کردار ادا کرے ۔ یمن میں انسان پہلے پھر باغی اور حکومتی حمایتی گروہ کی بات کی جائے۔