جدہ (جیوڈیسک) سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد نے یمن کے حوثی شیعہ باغیوں پر مذاکرات کو دوبارہ مسلح اور منظم ہونے لیے استعمال کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔
اتحاد کے ترجمان بریگیڈئیر جنرل احمد العسیری نے منگل کے روز فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ ” وہ (حوثی باغی) مذاکرات کے ذریعے لوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔انھوں نے اپنی عسکری قوت کو دوبارہ منظم کیا ہے،اپنی فورسز کو اسلحہ مہیا کیا ہے اور اب پھر لڑائی کی جانب لوٹ آئے ہیں۔ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ”یمن میں امن وامان کی بحالی کے لیے اتحاد سے جو بن پڑا ،وہ کرے گا”۔سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کے لڑاکا طیارے گذشتہ سال مارچ سے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی شیعہ باغیوں اور ان کے اتحادی سابق صدر علی عبداللہ صالح کے وفادار فوجیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کررہے ہیں۔ انھوں نے کویت میں یمن امن مذاکرات کی ناکامی کے بعد گذشتہ ہفتے حوثیوں کے زیرقبضہ صنعا اور دوسرے علاقوں پر دوبارہ حملے شروع کردیے ہیں۔
بریگیڈئیر احمد العسیری نے کہا کہ حوثی باغی تو روز اول سے ہی جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کرتے چلے آئے ہیں۔چنانچہ اتحاد نے بھی یمنی فوجیوں کی فضائی امداد شروع کردی تھی۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ گذشتہ قریباً اٹھارہ ماہ کے دوران اتحاد نے یمن میں اس فوجی کارروائی سے کیا مقاصد حاصل کیے ہیں تو انھوں نے کہا کہ باغی گذشتہ سال مارچ کے بعد سے کہیں زیادہ کم زور ہوچکے ہیں لیکن یمن میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ بند نہیں ہوئی ہے حالانکہ اتحاد نے یمن کی سرحدی حدود کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
سعودی عرب اپنے علاقائی حریف ایران پر حوثیوں کو مدد مہیا کرنے کا الزام عاید کررہا ہے۔ان سے جب سوال کیا گیا کہ اتحاد یہ کارروائی اور کتنی دیر جاری رکھ سکتا ہے؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن ہماری قومی سلامتی اور خطے کے استحکام کے لیے ہے،اب اس میں خواہ کتنا ہی وقت لگ جائے۔
واضح رہے کہ یمن میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں مارچ میں فریقین کے درمیان جنگ بندی طے پائی تھی اور اپریل میں کویت میں حوثی وفد اور صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کے نمائندوں کے درمیان عالمی ایلچی اسماعیل ولد شیخ احمد کی ثالثی میں امن مذاکرات کا آغاز ہوا تھا لیکن تین ماہ تک طرفین کے درمیان بات چیت کے دوران بحران کے پُرامن خاتمے کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔