یمن (جیوڈیسک) مغربی دنیا بشمول جرمنی کی طرف سے متحدہ عرب امارات کو فروخت کیے گئے ہتھیار اس ملک سے انتہائی غریب اور جنگ زدہ ریاست یمن میں مختلف ملیشیا گروپوں تک پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ بڑی تعداد میں انسانی ہلاکتوں کا باعث بن رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الزام لگایا ہے کہ خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کو مغربی دنیا کی طرف سے جو ہتھیار مہیا کیے جاتے ہیں، وہ وہاں سے یمن کی خانہ جنگی میں شریک مختلف ملیشیا گروپوں کو پہنچائے جا رہے ہیں۔
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے ابھی حال ہی میں متحدہ عرب امارات کا جو دورہ کیا، اس سے بین الاقوامی سطح پر اس عرب ریاست کی ساکھ مزید مثبت ہوئی کیونکہ پاپائے روم کا یہ دورہ کسی بھی پوپ کا اس ملک کا اولین دورہ تھا۔
پوپ فرانسس کے اس دورے سے یو اے ای کو خود کو ’باہمی برداشت والے ایک معاشرے‘ کے طور پر پیش کرنے کا موقع بھی ملا۔
لیکن اس دورے کے محض چند ہی روز بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک ایسی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں متحدہ عرب امارات پر ہتھیاروں کی غیر قانونی تجارت اور قومی سرحدوں کے پار ترسیل کا الزام لگایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس تنظیم کی طرف سے کی گئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی طرف سے یمن میں مختلف ملیشیا گروپوں کو جدید ترین اسلحے سے لیس کیا جا رہا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان مغربی ہتھیاروں میں بکتر بند گاڑیاں، مارٹر سسٹم، چھوٹے آتشیں ہتھیار، پستولیں اور بڑی تعداد میں مشین گنیں بھی شامل ہیں، جن کی وسیع تر مقدار ایسے مسلح یمنی جنگی گروپوں تک پہنچ رہی ہے، جن پر کسی بھی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
ایمنسٹی کی اس رپورٹ کے مطابق، ’’ایسے ملیشیا گروپوں پر یمن میں جنگی جرائم کے علاوہ انسانی حقوق کی انتہائی شدید نوعیت کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ ایسے ملیشیا گروپوں کو ان ہتھیاروں کی فراہمی یمن کی پہلے سے تباہ حال شہری آبادی کے لیے اور بھی ہولناک ثابت ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے بھی بہت تشویش ناک ہے کہ یمن کی جنگ اب تک ہزارہا عام شہریوں کی جان لے چکی ہے اور لاکھوں انسانوں کو بھوک کے انتہائی شدید مسئلے کا سامنا بھی ہے۔‘‘
انتہائی سنگین نوعیت کے ان الزامات کے باوجود، جو اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات اور یمنی ملیشیا گروہوں پر عائد کیے جاتے ہیں، ابھی کچھ عرصہ قبل ہی یورپ کے برطانیہ، جرمنی، فرانس اور بیلجیم جیسے ممالک نے یو اے ای کو یا تو کئی طرح کی نئے دفاعی برآمدات کی منظوری دی یا پھر ان ممالک سے جدید ہتھیار عملاﹰ اماراتی حکومت کو برآمد کر دیے گئے۔
ایمنسٹی کے مطابق یو اے ای سے ایسے ہتھیاروں کا یمن پہنچایا جانا اس لیے غیر قانونی اور قابل مذمت ہے کہ ہتھیاروں کی تجارت کے بہت سے معاہدوں میں اکثر ایسی شقیں بھی شامل ہوتی ہیں کہ درآمد کردہ اسلحہ بالآخر کہاں پہنچے گا اور کہاں استعمال کیا جائے گا۔
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
جرمنی کے شہر بون میں قائم ہتھیاروں سے متعلق بین الاقوامی مرکز BICC کے سیاسی امور کے ماہر اور امن پر تحقیق کرنے والے محقق ماکس مُچلر کہتے ہیں، ’’ہتھیاروں کے ایسے تجارتی سودوں میں ایک لازمی شق ہمیشہ اس امر کی تصدیق کرنا ہوتی ہے کہ یہ درآمدی ہتھیار کسی تیسرے فریق کو مہیا نہیں کیے جائیں گے۔‘‘ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات اور یمنی ملیشیا گروہوں کے معاملے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ایسا تجارتی معاہدوں میں شامل ضمانت ناموں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا گیا۔
ماکس مُچلر کہتے ہیں کہ اگرچہ ایسا کرنا ہتھیاروں کے کسی بھی تجارتی معاہدے کی شرائط کے منافی ہے، پھر بھی گزشتہ کئی برسوں سے ایسی کسی خلاف ورزی کے بعد درآمد کنندہ ملک کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ درآمدی ہتھیار ایسی حکومتوں کو بیچے گئے، جنہوں نے انہیں آگے کسی اور کے حوالے کر دیا اور ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہوئی۔ یہ سب کچھ اسلحے کی تجارت کی نگرانی کے نظام میں کمزوریوں کا عکاس ہے۔‘‘
یمن میں خانہ جنگی کے آغاز سے لے کر آج تک مغربی ممالک نے صرف متحدہ عرب امارات کو ہی کم از کم ساڑھے تین ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار مہیا کیے ہیں۔ عرب دنیا کی غریب ترین ریاست یمن میں مارچ دو ہزار پندرہ سے ایک ایسی جنگ جاری ہے، جس میں ایک طرف اگر ایران نواز حوثی باغیوں کی شیعہ ملیشیا ہے تو دوسری طرف ملکی صدر منصور ہادی کی حامی عسکری قوتیں۔
یمن: تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
یہ معاملہ اب تک بالواسطہ طور پر ایک علاقائی مسئلہ اس طرح بن چکا ہے کہ یمنی صدر منصور ہادی کی حامی فورسز کو سعودی عرب کی قیادت اور کئی عرب ریاستوں کی عملی حمایت کی صورت میں ایک ایسے عسکری اتحاد کا تعاون بھی حاصل ہے، جو برسوں سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملے بھی کر رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق یمنی جنگ میں اب تک دس ہزار سے زائد انسان ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے ہزاروں عام شہری تھے۔
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
جرمنی مین اسلحہ سازی کی صنعت کے بڑے بین الاقوامی گاہکوں میں گزشتہ چند برسوں کے دوران متحدہ عرب امارات ایک اہم نام بن چکا ہے۔ پچھلے صرف تین برسوں کے دوران جرمن حکومت کی طرف سے اس خلیجی ریاست کو ہتھیاروں کی برآمد کے جن سمجھوتوں کی منظوری دی گئی، ان کی مجموعی مالیت 490 ملین یورو بنتی ہے۔
اس کے علاوہ سال 2017ء میں جرمنی نے اسلحے کی برآمدات کے کل 1.3 بلین یورو مالیت کے ایسے معاہدوں کی منظوری دی، جن کے نتیجے میں یہ ہتھیار ان ممالک کو فراہم کیے گئے، جو یمنی جنگ کے عسکری فریق بن چکے ہیں۔ گزشتہ برس یو اے ای کو جرمنی سے ہتھیاروں کی برآمد میں کافی کمی آئی، جس کا سبب مارچ 2018ء میں جرمنی میں طے پانے والا وہ مخلوط حکومتی معاہدہ تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ یمنی جنگ میں شریک ممالک کو، جب تک وہ ایسا کرتے رہیں گے، جرمنی سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں کیے جائیں گے۔
BICC کے ماکس مُچلر نے مطالبہ کیا ہے کہ یمن کی جنگ کے فریق ممالک، خاص طور پر متجدہ عرب امارات کو مغربی دنیا کی طرف سے اسلحے کی برآمد پر پابندی لگائی جانا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے اجتماعی سیاسی ارادے کی کمی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
مزید یہ کہ اگر جرمنی میں موجودہ مخلوط حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے مابین معاہدے میں یمنی جنگ کے فریق ممالک کو ہتھیار مہیا نہ کرنے کی شق شامل ہے بھی تو مجموعی طور پر یورپی ممالک میں ایسی کسی پابندی پر آمادگی کا فقدان ہے۔