کل کے ہیرو

Haider Zaman

Haider Zaman

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
میرا تعلق ضلع ہریپور کے گائوں نلہ سے گجر برادری سے تعلق ہے۔پیار اور محبت سب کے لئے آج بابا جی ایک یاد گار تصویر نظر آئی جس میں ہم رماضان ٢٠١٠ میں حرم پاک مکہ کے باہر دیوار کے ساتھ بیٹھے ان کی باتوں سے محظوظ ہو رہے تھے۔ بابا حیدر زمان علی ہیں عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ان کی صحتیابی کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ اللہ انہیں عمر خضر عطا فرمائے لیکن اس فانی دنیا میں رہا کون ہے ؟ایک منحنی سے جسم کا ایک بزرگ شخص جس کی طرف سے اس پوری ہزارے وال کمیونٹی کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی ہو گی کہ وہ اپنی سوانح عمری ان لوگوں کو دئے بغیر رخصت ہو جائیں۔ بونے لوگوں سے دنیا بھری پڑی ہے مفاد پرستوں نے اسے ایک متشدد شخص قرار دیا اپنے فائدے سمیٹے وزارتیں لیں پارٹیوں میں گھس گئے۔یہ بات تو حقیقت ہیں کہ جس سے آپ پیار کرتے ہیں اس کی ہر بات کو اچھا سمجھتے اور لکھتے بولتے بھی ہیں اور جو آپ کے ذہن میں فٹ نہ بیٹھے اسے احمق ،جاہل جو کچھ بھی کہیں کہہ سکتے ہیں۔زمرد خان نے جب سکندر نامی شخص پر جھپٹنے کی کوشش کی لوگوں نے اسے دلیر اور بہادر کہا اور کچھ نے ان کے اس عمل کو نا پسندیدہ قرار دیا۔جو اقتتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں ان کے نزدیک بابا کچھ بھی نہیں ہیں مگر وقت آئے گا جب لوگ ہزارہ کے کسی جری بہادر اور دلیر شخص کا نام لیں گے تو اس میں بابا سردار حیدر زمان کا نام سر فہرست ہوگا۔

وقت آیا ہے وقت چلے بھی جائے گا مگر میں بابا جی کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا ۔میں بھی ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہوں جن کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔میں یہ نہیں کہتا کہ میں اکیلا بابا جی کی محبت کا گرفتار ہوں اس میں بہت سے اندرون اور بہت سارے بیرون ملک مقیم لوگ ہیں۔میری یہ عادت ہے جسے جانتا ہوں اس کے بارے میں لکھتا ہوں جسے اچھا سمجھتا ہوں امانت لوگوں کے حوالے بھی کر دیتا ہوں۔کوئی پتہ نہیں بابا جی پہلے جاتے ہیں یا میں۔ہم گئے تو ٹہنی بھی نہیں ہلے گی پتہ بھی کر کڑ نہیں کرے گا۔

بر مزار ما غریباں نئے چراغے نئے گلے ۔فقیروں کا کیا ہے جلی اور کلی ۔دائم آباد رہے گی دنیا ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا ۔ وہ گئے تو کہرام مچے گا اخبارات ضمیمے چھاپیں گے۔ لگتا ہے کوئی چھکرا بھی ہو گا جس کے پیچھے تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد لکھا ہو گا۔اللہ نہ کرے وہ میں دیکھون مگر خاک کے پتلے کتنا جی لے گا تو۔لیکن افسوس کے ایبٹ آباد کے صحافی بھی اتنا نہیں کرتے کے اس شخص کے پاس بیٹھیں ان کی سنیں انہیں عوام تک پہنچائیں۔با با جی اگر صحت مند ہوتے اور ایبٹ آباد کے لوگ ان کے پیچھے کھڑے ہوتے تو اظہر جدون کے ساتھ ہونے والے واقعے پر وہ قطعا خاموش نہ رہتے۔

یہ واقعہ ہزارہ کے منہ پر ایک سیاہ داغ ہے وہ کیسے دور ہوگ اسارے سیاست دان سوچیں۔اظہر جدون پی ٹی آئی کے ہیں ان سے کارکنان کو گلہ بھی رہتا ہے ہو سکتے ہے وہ بہت مصروف ہوں انہیں اظہار یک جہتی کا پیغام دینے والوں میں بھی تھا ۔بعد از حادثہ شائد پریشانی ہو یہ بھی ہو سکتا ہے وہ بہت مصروف ہوں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ان باکس دیکھ لینا چاہئے وقت اپنے پاس بھی اتنا فالتو نہیں ہے۔کچھ لوگوں کو فین زیادہ پسند ہوتے ہیں دوست نہیں۔ میں نے پی ٹی آئی میں ہزارہ کے ان سب لوگوں میں شامل ہونے کی پہل کی تھی۔اگر اس میں شک ہے تو شیر بہادر سے پوچھ لیں سردار یوسف گواہ ہیں مشتاق غنی کو دعوت دی جدون صاحب سے ملاقاتیں بہت رہیں حضور کی مصروفیت اپنی جگہ مگر میں ان سے ضرور کہوں گا کہ ہماری خیر ہے کارکنوں کی باتوں کا جواب دیا کریں ملا جلا کریں پارٹی ہے تو آپ ہیں ورنہ اس سے پہلے آپ امان اللہ خان کے لئے ایک طریاق کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔

Election

Election

مہتاب عباسی صاحب سے برسوں کی یاد اللہ ہے کہیں بھی ہوں روائت کی پاسداری کرتے ہیں گورنر ہوں یا نہ ہوں محبت بانٹتے ہیں۔میرا بھتیجا این اے اٹھارہ کی سیاست کرتا ہے فیصل ذوالفقار اللہ کے فضل سے اس سے بھی پیار ہے اور ایک تعلق مرتضی جاوید سے بھی ہے یہ ہزارے والوں کی ایک اچھی روائت ہے جو بہر صورت زندہ رہنی چاہئے۔یہ ہزارہ میری مادر گیتی کا وصف ہے۔

با با حیدر زمان کوئی زمانہ آئے گا ہزارے وال ایوب خان کی طرح ان کی تصویر ٹرک کے پیچھے لئے پھریں گے۔میں نے دو بار عمران خان صاحب سے خصوصی درخواست کی وہ ان کے پاس گئے یہ بابا جی کا احسان تھا کہ انہوں نے فون کر کے مجھے جدہ اپنے گھر سے خان صاحب سے میری بات کروائی اور انہیں کہا یہ شمولیت کی دعوت افتخار بھی مجھے دیتا رہا ہے۔یہ ایک کارکن کے لئے بڑے فخر کی بات ہے کہ میرا قائد میرے مشورے پر وہاں گئے افسوس ہے بات نہ بن سکی۔

الیکشن ٢٠١٣ میں بڑی کوشش تھی کہ یہ سیٹ اوپن چھوڑ دی جاتی تو ہزارہ ایک دھبنگ شخص کو اسمبلی میں بھیج دینے میں کامیاب ہو جاتا۔ہم تو سردار یعقوب کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے ہمیشہ عزت افزائی کی۔کاش دو سردار سمجھ جاتے اور ایک ایسا شخص اسمبلی میں پہنچ جاتا جو ہزارہ کی بات کرتا ۔آج ہزارہ قحط الرجالی کا شکار ہے میرے بہترین دوست سردار یوسف محسوس نہ کریں اظہر جدون مائینڈ نہ کریں کیا آواز اٹھائی ہے آپ لوگوں نے ہزارہ کے لئے۔ہم دبے ہوئے اور پسے ہوئے ہیں پی ٹی آئی کی حکومت اپنی جگہ مگر کیا ہزارہ کو صوابی مردان پشاور کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے؟یہ بابا ہی تھے کہ اگر انہیں اسمبلی میں بھیجا جاتا تو آج ہزارہ کمزور نہ پڑتا۔ہم ہزارے وال پاکستان کی ایک عظیم قوم ہیں جو کسی پنکھے سے لٹک کر نہیں اپنے ہاتھوں خود اپنا گلہ دب لینے میں ماہر ہیں۔

بابا جی جدہ آئے برادر سلطان اور سردار شبیر ہم تینوں نے ایک عظیم الشان ہزارہ کانفرنس ان کے نام کی جس میں ساری پارٹیوں کے لوگ آئے اور با با جی کی پذیرائی کی۔میرا ان سے پیار اللہ واسطے کا ہے وہ میرے مرحوم ماموں کے دوست ہیںمیرے مرحوم چچا کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔بابا جی کے ساتھ میرے بھائی مختیار گجر کے اختلافات بھی رہے مگر جو پیار اور محبت انہوں نے دیا اس کے ممنون ہیں ہماری دلی خواہش ہے کہ سارے ہزارہ کے لیڈر ان کے پاس اکٹھے ہوں ایک عہد کریں کہ صوبے کی تحریک کو اٹھائیں گے اپنی اپنی پارٹیوں کے کلچ سے آزاد ہو کر اگر یہ کوشش کر لی جائے تو کمال ہو جائے میرے عزیز دوست سردار شیر بہادر مجھے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ بابا جی سوچ کو آگے بڑھائیں گے۔

جدہ کے ان سالوں کو کبھی نہیںبھول سکتا جب حیدر زمان صاحب وہاں آ کر ہمیں سمجھاتے اور کہتے کہ اسلام آباد آئی نائن میں حطار میں پلاٹ لو ہم میں سے جن کے پاس وسائل تھے کسی نے نہیں سنی اور وہ چند لاکھ کے پلاٹ جو قسطوں میں تھے آج کروڑوں کے ہیں۔انہوں نے صوبہ ہزارہ کی جو تحریک شروع کی اسے آگے بڑھنا چاہئے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ہزارے وال مری پوٹھوہا راور جہلم تک ایک ثقافتی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں پشتون بھی ہمارے بھائی ہیں لیکن سچ پوچھیں ہزارہ کبھی پشتون علاقوں کے ساتھ پنپ نہیں سکتا۔ ایک لکیر کھنچ گئی تھی اور وہ تھی آزادی کے وقت ہزارہ کا کردار۔گرچہ پشتونوں سے نمائیندگی اب تحریک انصاف نے اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے لیکن وہ بات دل سے نہیں نکل سکتی۔بابا جی کو اللہ لمبی عمر دے۔کل کے ہیرو کو آج عزت و تکریم دی جائے۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری