ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا.. مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے..
سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں ایک شعر بھی لکھ ڈالا اور اس شعرنے قیام پاکستان سے لیکر نومبر 17 کی دھند لی شاموں کو اور بھی حیران کن بنا دیا کہ یہ وہی عدالتیں ہیں جن پر کبھی ان راہزنوں کا قبضہ تھا جو ایک ٹیلی فون کال پر اپنی مرضی کے فیصلے لکھوالیا کرتے تھے اور اب وہی آزاد عدالتیں راہزانوں کے خلاف نہ صرف کھل کرفیصلے بھی دے رہی ہیں بلکہ ان سے یہ بھی پوچھ لیا کہ بتا قافلہ کیوں لٹا کیا لاکھوں جانوں قربانیوں اور ماؤں ، بہنوں کی عصمتیں لٹا کر 70سال قبل حاصل کیا جانے والا پاکستان دوبارہ پھر لٹانے کے لیے بنایا گیا تھا کیا قربانیاں دینے والے ہر بار قربان ہوتے رہیں اور یہ سیاسی ٹھگ اور لٹیرے ہمارے خون کا آخری قطرہ تک بھی نچوڑ کر لے جائیں بیرون ملک مقیم اور وہاں پر اربوں روپے کی جائیدادیں بنا کر ہمیں سیاست اور جمہوریت کا درس دینے والے یہ پاکستان میں بھی ایسا ہسپتال نہ بنا سکیں جہاں بیگم کلثوم نواز کا علاج ہوسکے اور کوئی ایک ایسا تعلیمی ادارہ نہ بنا سکیں جہاں انکے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔
کراچی سے خیبر تک عوام کو دلفریب نعروں کے جال میں الجھا کرسب رہزانوں نے جی بھر کرلوٹا کبھی سندھی پنجابی کو لڑایا گیا تو کبھی مہاجر کو اکسایا گیا اور کبھی پٹھانوں کو بھڑکایا گیا ہم 20کروڑ عوام کو آج تک کوئی پاکستانی بنانے نہیں آیا بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے ایسا کام کردیا کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی انکے لیے دعا گو رہیں گی باقی رہی بات الیکشن کی کہ وہ کب ہونگے اس پر بات کرتا ہوں مگرپہلے زرا سیاسی تاریخ کے ایک مختصر نکاح کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے فاروق ستار اور مصطفی کمال کی کہانی بھی عجیب ہے دونوں کل اکٹھے بیٹھے بڑے بڑے فیصلے کیے ملک کر عوام کو چلنے کی باتیں کی وہی پرانا راگ گایا اگلے دن فاروق ستار نے مصطفی کمال سے گاڑیوں اور گھر کاحساب مانگ لیااور ساتھ ہی سیاست سے توبہ بھی کرکے تین طلاقیں اکٹھی دیدی مگر گھر جاتے ہی ایک بار پھر پلٹا کھایا اور تھوڑی دیر بعد دوبارہ سیاست سے رشتہ جوڑ لیا اگر دیکھا جائے توسیاست میں الفاظ اور بیان کی ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے ایم کیو ایم اور پی ایس پی کی کل کی مفاہمت بھی آج ٹوٹ گئی مصطفٰی کمال کی کل پریس کانفرنس کے دوران ریمارکس اور ٹون بظاہر اس اتحاد ٹوٹنے کی وجہ لگتے ہیں بہرحال پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں اپنے منطقی انجام کی طرف جارہی ہیں اور حالات ایک طویل مدتی عبوری سیٹ اپ کی طرف خود بخود جارہے ہیں اور سب سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اسکی ذمہ دار ہیں۔
سیاستدانوں کی باہمی چپقلش اور اقتدار کی رسہ کشی کیساتھ مقتدر طبقات کی منافقت،مفاد پرستی اور کرپشن ہر شعبہ میں تباہی کا باعث بن چکی ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان کا ہر شعبہ اپنی افادیت سے محروم ہوچکا ہے اور کوئی بھی ادارہ اپنے فرائض دیانتداری و فرض شناسی سے انجام نہیں دے رہا ہے جس کی وجہ سے عوام نا انصافی، استحصال،بیروزگاری،غربت اور نامساعد حالات و ناکافی سہولیات کے ساتھ بیماری اور ناتوانی کا بھی شکار ہیں اور اب آتے ہیں الیکشن کی طرف کہ کیا وہ وقت پر ہو پائیں گے یا نہیں نئی مردم شماری متنازعہ ہوئی پڑی ہے۔
اگر تمام صوبے اسکے نتائج تسلیم بھی کرلیں تب بھی نئی مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیاں اور نئی حلقہ بندیوں کے مطابق الیکشن کرانے کے لئے ایک سے ڈیڑھ سال کا کم سے کم عرصہ درکار ہے جبکہ بڑی سیاسی جماعتیں انتخابات میں اتنا التواء نہیں چاہتیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ نگران حکومت کو زیادہ مدت مل گئی تو کہیں اصلاحاتی ایجنڈا ہی نہ شروع ہوجائے،اس طرح روایتی سیاستدانوں کی ہمیشہ کے لئے چھٹی ہوسکتی ہے،اس لئے پیپلزپارٹی ن لیگ سمیت ہر جماعت کی کوشش ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہوں چاہے پرانی مردم شماری پر ہی کرا لئے جائیں،تحریک انصاف بھی یہی چاہتی ہے کیونکہ ن لیگ کے بیک فٹ پر ہونے اور پیپلزپارٹی کو مناسب عوامی پزیرائی نہ ملنے کی وجہ سے ان کے پاس الیکشن میں کامیابی کا یہ سنہری موقع ہے لیکن سوال یہ ہے کہ الیکشن نئی مردم شماری یا پرانی پر کیسے کرائے جائیں؟ دونوں صورتوں میں آئینی بحران کا خدشہ ہے۔ آئین میں لکھا ہے کہ نوے روز میں انتخابات کرائے جائیں لیکن آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ نوے دن سے زائد عرصہ بھی لگ جائے تو یہ بھی غیر آئینی نہیں جسکی وجہ آئین کا آرٹیکل 254 ہے۔
آرٹیکل 254 میں لکھا ہے کہ اگر کوئی کام یا چیز جس کا آئین تقاضا کرے کہ اسے اتنی مدت میں ہونا چاہیے اگر اس کام کو کرنے کے لئے جو اقدامات درکار ہیں وہ اقدامات پورے نہ ہوسکیں اور اس وجہ سے وہ کام مقررہ مدت میں پورا نہ کیاجاسکتے تو آئین کے مطابق تب بھی یہ خلاف آئین نہیں ہوگا،اس آرٹیکل کا حوالہ 23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان میں جلسہ کے دوران ڈاکٹر طاہرالقادری نے دیا تھا،ان کے بقول ” شفاف الیکشن، آئین کے مطابق نظام رائج کرنے، نیک سیرت اور اہل لوگوں کو لانے میں بیشک 90روز سے زائد کا عرصہ بھی لگ جائے تو یہ غیر آئینی نہیں گا، آئین اس کی اجازت دیتا ہے” اس وقت تو اس آرٹیکل کی تشریح پر بڑی لے دے ہوئی تھی اور سیاستدانوں سے لے کر کالم نگاروں تک اسے انتخابات ملتوی کرانے کی سازش قرار دیا تھا تاہم اب انتخابات کے حوالے سے جس طرح کا آئینی بحران پیدا ہونے جارہا ہے ایسے میں اس آرٹیکل کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔۔کیونکہ آئین کہتا ہے کہ الیکشن شفاف اور منصفانہ کرائے جائیں،، مردم شماری کے مطابق کرائے جائیں،، اب اگر یہ لوازمات پورے نہیں ہوتے تو پہلے ان کو پورا کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں،، اگر نئی حلقہ بندیاں درکار ہیں تو پہلے وہ پوری کی جائیں اس دوران جو بھی عرصہ لگ جائے آئین کا آرٹیکل 254 اسکی اجازت دیتا ہے سادہ الفاظ میں اسمبلیاں تحلیل کر کے نگران حکومت بنائی جائے اور اسے نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کرانے اور انتخابی نظام میں اصلاحات کی مینڈیٹ دیا جائے۔