نوجوان نسل میں عدم برداشت

Intolerance

Intolerance

تحریر : علی رضا رانا

مومنو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش (جہنم) سے بچائو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پر تند خو اور سخت مزاج فرشتے (مقرر) ہیں جو ارشاد خدا ان کو فرماتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کائنات میں ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے ۔ جن کو شمار کرنا ستارے کننے کے مترادف ہے ۔ ان نعمتوں میں سے ایک نعمت بطے ہیں ۔ یہ نعمت جس کو بھی حاصل ہوتی ہے وہ خدا کے حضور ہر وقت شکر کرنے میں مگن رہتا ہے جس کو حاصل نہیں ہوتی وہ رب تعالیٰ سے مانگنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ۔ نبی کریم ۖ نے بچوں کو جنت کو پھول قرار دیا ہے اس بھول کی پرورش اور نشوونما صحیح طور پر کرنا ہر والدین کی ذمے داری ہے اس تربیت کو معمولی نہ سمجھا جائے ۔معمولی کو تاہی اس پھول مرجھانے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ب

چے کی پیدائش سے ہی اس کی پرورش کی ذمے داریاں اس کے والدین پر آ جاتی ہیں بچہ وہی بولتا اور وہی دیکھتا ہے جو اسے سکھایا اور بتایا جاتا ہے ہمارے پیارے نبی کریم ۖ کا ارشاد ہے” کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور نحفہ حسن ادب اور اچھی سیر ت سے بہتر نہیں دیا ” ۔ اس حدیث شریف میں بچوں کی تربیت کرنے کی تاکید کی گئی ہے بچے کی تر بیت بہت ہی اہم اور نا ز ک فریضہ ہے۔اسلام نے بچے کی تربیت اور پرورش کی زیادہ تر ذمے داری اس کے والد پر ڈالی ہے اگرچہ ماں کے ساتھ بچہ والد کی بانسبت زیادہ مانوس ہوتا ہے۔

ماںکے ساتھ زیادہ ہرتا ہے اس کی ہربات اور حرکت کو نقل کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے لیکن باپ کی حیثیت اپنی جگہ ہے باپ کا سایہ شفقت بچے کے لیے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ایک بہت ہم اہم مسئلہ جو ہمارے معاشرے میں عام ہے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ والدین گھروں میں اپنے بچوں کو بہت ہی کم وقت دیتے ہیں ۔ ان سے باتیں کم کرتے ہیں گھر کے ماحول کی طرف کم دھیا ن دیتے ہیں ۔ اپننے بزنس اور دفتری کام میں مگن رہتے ہیں ۔ بچوں کو اپنی پرورش میں رکھنے کے بجائے خادمہ کے حوالے کر جاتے ہیں ۔ جس کا نقصان یہ ہوتا کے بچے بگڑ جاتے ہیں ۔ عربی کا ایک شعر ہے جس کا ترجمہ ہے کہ ” یتیم وہ نہیں جس کے ماں باپ مرجاتے ہیں بلکہ یتیم وہ ہے جو علم سے محروم رہ جائے” ۔ جن مائوں کو اپنے بچوں کی تربیت کا سلیقہ نہ آتا ہو اور ساتھ ہی باپ ک پاس بھی اتنا وقت نہ ہوکہ وہ اپنے بچوں کی صحیح تر بیت کر سکے تو وہ بچے یتیم ہیں ۔ ایک پڑھی لکھی ماں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کر سکتی ہے۔

بعض گھروں میں میا ں بیوی کے جھگڑے ختم ہونے کا نام نہیں لیتے یہ جھگڑے نقصان کاباعث اس وقت بنتے ہیں جب جھگڑے بچوں کے سامنے ہوتے ہیں۔ اس سے بچوں کے اندر چڑ چڑ پن پیدا ہوتاہے والدین کی عزت و احترام میں کمی آجاتی ہے بچوں کے مزاج میں سختی پیدا ہوتی ہے بچوں کے دل میں والدین کے لیے نفرت بھر جاتی ہے ان کے ذ ہن منتشر ہوجاتے ہیں ۔ گھر میں سکون نہ ملنے پر وہ بری محفلوں چلے جاتے ہیں اور بری صحبتیں اختیار کرتے ہیں جس سے بچے بگڑ جاتے ہیں۔خالق کائنات کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے۔

انسان کی پہلی درسگاہ اسکا گھر ہوتا ہے جہاں اسکی پرورش کی جاتی ہے۔ جس سے اسے ایک خاص طرح سے سوچنے اور عمل کرنے کا سلیقہ آجاتا ہے نیک عورت کی گود میں پلنے بڑھنے والا بچہ یقیناً ایک اچھا انسان اور بہتر مسلمان ہوتا ہے یہبشہ ماں کا آئینہ دار ہوتاہے ۔ اور اس میں عزت نفس، وفا کشی اور غیرت کی وہ تمام خوبیاں موجود ہوتی ہیں جو خود اس کی ماں میں موجود تھیں ۔ انسان میں موجود جہالت صرف تعلیم سے نہیں بلکہ پرورش سے بھی ختم ہوتی ہے۔ تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب ، مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے، یہ انسان کا بنیادی حق ہے جو کوئی اسے نہیں چھین سکتا ۔ اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہے۔ تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کے لئے ترقی کی ضامن ہے یہی تعلیم قوموں کی ترقی ار زوال کی وجہ بنتی ہے۔

تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف اسکول ، کالج، یونیورسٹی سے ڈگری لینا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور سماج کا خیال رکھ سکے ۔تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوار اتی ہے، اس دنیا مین ایسے افراد بھی جنم لیتے ہیں جن کے نزدیک تعلیم و تہذیب کویہ معنی نہیں رکھتی ۔وہ حیوانوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور اس جانی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں انسان کا دنیا میں برتائو کیسا ہونا چاہے اس کے یے لازمی ہے کہ ہمیں علم ہوکہ انسان کیا ہے اور اسکی تخلیق کا کیا مقصد ہے۔دنیا مین اگر ہر چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ تعلیم کی عجہ سے دیا گیا ہے ورنہ حیوان اور جانور میں کوئی فرق یہ رہتا تعلیم خاصل کرنا ہر مذہب میں جائز ہے۔

اسلام میں تعلیم حاصل کرنا فرض کیا گیا ہے ۔ آج سے اس پر اشوب اور تیز ترین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کا حامل ہے چاہے زمانہ کتنا ہی ترقی کرلے ۔حالانکہ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے ایٹمی ترقی کا دور ہے ساینس اور صنعتی ترقی کا دور ہے۔ مگر اسکولوں میں بنیادی عصری تعلیم ، ٹیکنیکل تعلیم، انجینئرنگ ، وکالت ، ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاحل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہیں ۔مسلمان بھی کبھی جدید تعلیم سے دور نہیں رہے بلکہ جدید زمانے کے جتنے بھی علوم ہیں زیادہ تر کے بانی مسلمان ہی ہیں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں معراج پاکر دین و دنیا میںسر بلندی اور ترقی حاصل کی لیکن جب بھی مسلمان علم اور تعلیم سے دور ہوئے وہ غلام بنالیئے گئے یا پھر جب بھی انہوں نے تعلیم کے مواقعوں سے خود کو محروم کیا وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے۔

آج پاکستا ن میں تعلیمِ ادارے دہشت گری کے نشانہ پر ہیں ۔ دشمن طاقتیں معصوم لوگوں کو تعلیم کی طرف سے بدگمان کرکے ملک کو کمزور کرنے ک درپے ہیں۔ ایسے عناصر بھی ملک میں موجود ہے جو اپنی سرداری ، جاگیرداری کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کی وجہ سے اپنے اثر و رسوخ والے علاقوں میں بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیںیہ بچوں کی تعلیم کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں ۔ کیونکہ وہ کم اجرت پر ان بچوں سے کام کروانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے دیہاتی علاقوں میں شرح خواندگی کم ہے جسکی وجہ سے اکثر بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں اور ان کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے اسی وجہ سے ہمارے نوجوان طبقہ تعلیم کی ریس میں پیچھے رہ جاتا ہے۔دوسرے جانب سیاستدان تعلیم کے فروغ او ر اس کے پھیلائو کے خلاف ہیں۔ اسکے علاوہ سرکاری حکام بھی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کے تعلیم کی وجہ سے عوام میں شعور پیدا ہوگا اور اس طرح عوام کو سیاستدانوں اور اعلیٰ سرکاری حکام کا اصل چہرہ نظر آجائے گا۔

مغرب کی ترقی کی راز صرف تعلیم کو اہمیت دنیا اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا ہے۔ اسی تعلیم کے بل پر انہوں نے پوری دنیا کو فتح کیا ہے مغرب کی کامیابی اور مشرقی کے زوال کی وجہ بھی تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ دنیا کے وہ ملک جن کی معیشت تباہ ہوچکی ہے ان کا دفاعی بجٹ تو اربوں روپے کا ہے ، مگر تعلیم بجٹ نہ ہونے کے برا بر ہے، یہی ان کی تباہی کا بائث ہے ۔ اگر کوئی بھی ملک چاہتا ہے کہ وہ ترقی کرے تو ان کو چاہیئے کہ وہ اپنی تعلیمی اداروں کو مضبوط کریں۔ آج تک جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ صرف علم کی بدولت کی ہے۔

صرف علم حاصل کرنا ضروری نہیں بلکہ اس کا اطلاق بھی ضروری ہے ۔ اس طرح صرف خواہش کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسکے حصول کے لیے عمل بھی کرنا چاہیے۔ہمیں چاہیئے کہ تعلیم حاص کریں اور اس کا صحیح استعمال کریں اور اگر ایسا ممکن ہوا تو وہ دن دور نہیں کہ ہم دنیا کے ان ملکوں میں شمار ہونا شروع ہوجائیں گے جو جدید علوم سے اگاہی رکھتے ہیں۔شعبہ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جنکہ وسائل اس مناسبت سے نہیں بڑھ رہے جس کی وجہ سے بر بالخصوص نوجوان نسل زیادہ متاثر ہورہی ہے آبادی کا بہت بڑا حصہ بچوں اور نوجوانوں پر مشنمل ہے جسے کار آمد شہری بنا کر ملک کے بہت سے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے تا ہم اس جانب توجہ نہ دینے سے جہاں قومی مسئل گھمبیر سے گھمبیر ہوتے جارہے ہیں وہیں نوجوانوں کے لئے اچھے اور شاندار مستقبل کی امید باندھنا بھی دشوار بنا جارہا ہے۔

یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس جانب کنبے سے لے کے حکومتوں تک سب کو توجہ دینی چاہیے ۔ لیکن ستم تو یہ ہے کہ کوئی بھی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہے اور دوسروں کو الزام دے کر جان چھڑوالیتاہے ۔ہماری آبادی کا بہت بڑا حصہ ناخواندہ ہے تاہم ایسے والدین جو اپنی ناخواندگی اور غربت کے باعث بچوں کو تعلیم دلانے سے قاصر ہیں ، اول تو انہیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ۔کہ اپنے بچوںکی تعلیم کا بندوبست کریں۔ اگر ایسا نہ کرسکیں تو بھی اپنے بچوں کو ذاتی تجربے کی بنیاد پر اخلاقی و معاشرتی رہنمائی فراہم کرنا سب سے پہلے والدین کا فرض ہے۔ایسے والدین جو خود ناخواندہ ہیں اور اپنے بچوں کو پڑھانے کی سکت رکھتے ہیں، انہیں بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کو شعور دلانے کے لئے تعلیم کی طرف راغب کریں اور یہی کام پڑھے لکھے والدین کو بھی کرنا چاہیے ازل سے آج تک اولاد کی پرورش ماں باپ کی ہی ذمہ داری ہے ۔

پرورش میں صرف اچھا کھانا اور اچھا لباس نہیں آتا بلکہ اس کی ایسی تربیت کرنا کہ وہ بعد میں والدین اور معاشرے ک لئے ایک اچھا شہری ثابت ہو۔ لڑکپن اور جوانی کی عمر میں قدم رکھتے وقت زیادہ تر بیت کہ ضرورت ہوتی ہے ۔اس کا مطلب ہرگز یہ ہیں کہ انہیں سخت پابندیوں کا شکار کردیا جائے بلکہ ان کی نفسیاتی کیفیت اور حرکتوں پر گہری نظر رکھتے ہوئے انہیں اچھے برے کہ تمیز فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اچھائی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی جائے۔

نئی نسل کو تربیت فراہم کرنے کے لئے دوسری بڑی ذمہ داری استاد پر عائد ہوتی ہے گو آبادی کا نصف حصہ اسکول جانے سے محروم رہتا ہے لیکن جو خوش قسمت اسکول پہنچ جاتے ہیں انہیں بھی تعلیم تو حصل ہوجاتی ہے تاہم یہ اہم ادارہ بھی ان بچوں کہ تربیت اور فکری رہنمائی کے سلسلے میں اپنا کردار پوری طرح سے نہیں نبھاتا ۔ہمارے معاشرے میں استاد گوناگونمسائل کا شکار ہے معاشرتی حیثیت اور تنخواہ کی کمی تو سرکاری و نجی اداروں کے اساتذہ کا مسئلہ ہے سرکاری اساتذہ کو حکومتوںکی جانب سے دی جانے والی بہت سی اخلاقی ذمہ داریوں کے مسئلے کا سامنا ہے جس سے وہ اپنے بنیادی فرض پر پوری طرح سے توجہ نہیں دے پاتے ۔ایماندار فرض شناص استاد بھی بچوں کو تعلیم تو دیتا ہے انہں اچھے نمبروں سے پاس ہونے کے فارمولا بھی بتاتا ہے ، لیکن ایک اچھا انسان بھھے کے سلسلے میں رہنمائی دینے پر توجہ نہیںدیتا زیادہ سے زیادہ یہ کہ کسی سے کوئی غلطی ہوجائے تو ڈانٹ پٹ کی شکل میں سزادی جاتی ہے۔

نوجوان نسل کو کارآمد شہری بنانے کی تیسری بڑی ذمہ داری حکومت کی ہے جو اپنے ملازم اہلکاروں کی مدد سے ملک کا نظام چلاتی ہے حکومت کو سب سے پہلے تو تعلیم کے شعبے سے وابستہ بیورو کریسی اور اساتذہ کے معاملات کو سدھار نا چاہیے ۔محکمہ تعلیم کے شعبہ سے وابستہ بیوروکریسی کو فعال اور کرپشن سے پاک بناکر استادکے مسائل میں کمی اور وسائل میں اضافہ کرناچاہیے تاکہ استاد تعلیم و تربیت کے مقدس فریضے کی جانب زیادہ سے زیادہ بہتر انداز میں خدمات سرانجام دے سکیں ۔آج کل موبائل اور کمپیوٹر کا دور دورا ہے ۔ بچے والدین کے سامنے ان کے موبائل پر گیم کھیلتے ہیں والدین بھی بڑے شوق سے اجازت دے دیتے ہیں ۔

اس بات سے بہت خوش ہوتے ہیں کہ بچے ان کے سامنے ہیں اور محفوظ ہیں اس کا نقصان یہ ہوتاہے کہ بچے جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہوجاتے ہیں جسمانی کھیلوں کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے نظر اور سردرد کے مسائل جنم لیتے ہیں۔والدین کو چاہیے اپنے بچوں کی تربیت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کریں۔اس کی صحیح طرح سے پرورش کریں ۔ اس کی چال ڈھال پر نظر رکھیں اس ک دوستوں اور محفلوںکی کڑی ننگرانی کریں بچوں سے شفقت سے پیش آئیں۔اچھے کاموں پر ان کی حوصلہ آفزائی کریں بچوں پر اعتماد اور ان کے عزت کریں بچوں کے درمیان فرق نہ کریں بچوں کے دل میں خوف پیدا نہ کریں بچوں کو بے عزت اور شرمندہ نہ کریں اپنے ذہنی دبائو کا غصہ ان پر نہ نکالیں اور نہ ہی ان پر جسمانی تشدد کریں ۔

ان کے ان کے ہاتھوں میں موبائل فون پکڑانے کے بجائے قلم اور کتاب دیں اپنے بچوں کی تر بیت کا بیڑا خود اٹھائیں بچوں کے جسمانی اور ذہنی کھیلوں پر خصوصی توجہ دے اور نہ بچوں کے سامنے آپس میں جھگڑے سب سے اہم یہ کہ ان کو عصر ی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم لازمی دلوائیں ۔اگر ہوسکے تو حافظ قرآن بنائیں یہ مفت کا صدقہ جاریہ ہے دنیا وآخرت میں فائدے یہ فائدے ہیں المختصر کہ بچے جنت کے پھول ہیں ان کی تربیت اور پرورش سے ان کو تازہ دم رکھیں ان پھولوں کو مرجھانے نہ دیں ۔ورنہ یاد رکھیے ان کا وبال آپ پر ہی ہوگا بچے مستقبل کا سرمایہ اور معمار ہیں ۔اس سرمایہ اور معمار کو سنوایے تاکہ بہتر سے بہترین معاشرے کی بنیاد کھڑی ہو۔

Ali Raza Rana

Ali Raza Rana

تحریر : علی رضا رانا