تحریر : افتخار چوہدری قریبی گائوں سے ایک نوجوان گھر کا سودہ سلف لینے شہر آیا ۔میدان میں ایک جلسہ جاری تھا۔نوجوان کھنچا چلا آیا مقرر جب قرآن کی تلاوت کر رہے تھے تو مجمع پر سکوت طاری تھا۔ایسا لگتا تھا چرند پرند سب کلام الہی سن رہے تھے۔سٹیج پر فانوس کی لو مدھم ہونا شروع ہوئی ۔نوجوان فورا سٹیج پر پہنچا اور اس میں ہوا بھر دی اور جلسہ گاہ میں روشنی ہو گئی۔ یہ واقعہ قیام پاکستان سے پہلے کا ہے گائوںنلہ تھا اور شہر ہریپور۔امیر شریعت نے اسے گلے سے لگایا۔اور کہا میرے ساتھ چلو گئے؟نوجوان نے سودا سلف کے پیسے اپنے ساتھی کو دیے اور وہ ان کے ساتھ ہو لیا۔علامہ عطاء اللہ شاہ بخاری کے ساتھ پورے ہندوستان کا دورہ کیا۔وہ نوجوان میرے والد محترم چودھری برخودار گجر مرحوم تھے۔قبلہ والد صاحب کی ایک یاد گار تصویر گجرانوالہ سے نکلنے والے اخبار قومی دلیر میں ہر سال چھپا کرتی تھی۔والد صاحب ریل کے ڈبے کے دروازے میں علامہ صاحب کے پیچھے کھڑے نظر آتے تھے۔
بشیر صحرائی کا قومی دلیر کیا بند ہوا ہمیں وہ یادگار تصویر بھی دیکھنے کو بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔دنیا کا کوئی بدنصیب شخص ہو گا جسے اپنے باپ سے پیار نہیں ہو گا۔باپ پہلی چھتری ہوتی تھی۔میرے خواب خیال میں یہ ایک بات اب بھی آتی ہے جب میں نے قرآن پڑھنا شروع کیا تو مولوی صاحب نے اللہ تعالی کے بارے میں بتایا کہ اللہ سب سے بڑا ہے تو مجھے اس دن پتہ چلا کہ باپ سے بڑھ کر بھی کوئی بڑا ہوتا ہے۔ماں سے پیاری کوئی چیز نہیں لیکن جب مولوی نوری صاحب مرحوم نے بتایا کہ ایک اور پیاری چیز بھی ہے جو ستر مائوں سے بھی بڑ کر پیار کرتی ہے تو وہ اللہ ہے۔اور مزید آقائے نامدار حضرت محمدۖ کے بارے میں اس مدرسے سے سبق ملا کہ کہ جو کوئی اپنے ماں باپ سے بڑھ کر مجھ سے پیار نہیں کرے کرتا اس کا ایمان مکمل نہیں ہوگا۔
یہ وہ مدارس ہیں جنہیں ایک بد بخت نے ہمارے سامنے کہا کہ مدارس جہالت کی یونیورسٹیاں ہیں۔قبلہ والد صاحب کی باتیں جب یاد آتی ہیں تو سوچتا ہوں کہ کیا گزشتہ تین دہائیوں سے باپ تو ہم بھی بنے ہیں جب اپنا مقارنہ ان سے کرتا ہوں تو سوچتا ہوں ہم تو ان کے عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔بلا کے دلیر تھے گجرانوالہ کے ایک نامی گرامی بدمعاش جس کا نام ماجھو پہلوان تھا جس کے نام پر فلم بھی بنی ہے اس کے ایک ساتھی نے ہمارا کارخانہ خالی کرنے سے انکار کر دیا اوپر سے دھونس الگ۔والد صاحب نے بندوق کے زور سے اپنی جگہ واگزار کرائی۔کون سی ایسی اولاد ہے جسے اپنا باپ پسند نہیں ہوتا۔ہمیں بھی دوسرے لوگوں کی طرح والد صاحب پسند تھے چھوٹے ست آدھے احاطے کے مکان کے صحن میں جب حقہ تازہ کرکے ان کے سامنے رکھا جاتا تو ہم بہن بھائی ان کی ٹانگین دباتے اس دوران ان کے بچپن کے قصے حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری سے جڑی یادیں سنایا کرتے۔ایک بات بڑی مزے کی بتائی کہنے لگے مجھے ایک بار کیمونزم سے دلچسپی پیدا ہوئی۔نیشل عوامی پارٹی سے پیار بڑھا۔کہنے لگے میں سمجھا کہ یہ بھی ایک عام سی پارٹی ہے۔
Hazrat Muhammad PBUH
ایک شام غلام نبی بھلر ۔سید قسور گردیزی،سی آر اسلم اجلاس میں شریک تھے ان لوگوں نے باتوں باتوں میں نبی اکرمۖ کی توہین کر ڈالی فرمایا میں نے کئیوں کو اپنے جوتوں کی زد میں ل لیا۔اس کے بعد کبھی بھی ولی خان کی پارٹی کے قریب بھی نہیں پھٹکے۔اسی طرح ایک سرکاری افسر جس نے لسانیت پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجابیوں کے خلاف زہر اگلا اسے لاہور دفتر میں پھینٹا لگا دیا والد صاحب اس جرم میں گرفتار بھی ہوئے، بعد میں باعزت بری ہو گئے۔کبھی حرام کمائی کے نزدیک نہیں لگنے دیا ہم کوئی بہت کھاتے پیتے نہ تھے مگر غریبوں کے اس محلے میں ہمارے اوپر اللہ کا کرم تھا۔دو دو لویریاں دروازے پر ہوتی تھیں۔میرا شوق تھا کہ ان کی دیکھ بھال کروں۔زندگی بھر اس شوق پر فخر رہا۔پنج کلیان بھینسوں کے ساتھ دوستی رہی۔مینی بھینسوں کو پسند نہیں کیا۔
والد صاحب سید سلوکا اور لاچہ پہنتے تھے باٹا کے کورڈ سلیپر پہنتے تھے۔ان کا بایاں ہاتھ کام کرتا تھا پٹائی کرنا ان کے خصائل عالیہ میں شامل تھا ہمیں بھی مار کھائے بغیر چین نہ ؤتا تھا۔میں گڈیاں چڑھانے کا شوقین تھا جب بھی بہار آتی میری گڈی آسمانوں پر ہوتی تھی۔ایک بار ڈسکے سے میری آنکھ کا آپریشن ہوا وہاں سے واپسی پر سبز پٹی لگی ہوئی تھی اور میں دوسرے روز گرمی میں چھت پر تھا۔والد صاحب نے باٹا کے سلیپر سے خوب پٹائی کی۔جس کی وجہ سے دادی اماں نے انہیں خوب سنائیں۔اس روز میں ماں جی کے پیچھے کھڑے ہو کر محظوظ ہوا مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ جسمانی قوتوں سے زیادہ روحانی تعلق طاقتور ہوتے ہیں ماجھو پہلوان پر بندوق تان لینے والی شخصیت خمیدہ کمر والی ماں کے ہاتھ جوڑ رہی تھی۔
والد صاحب نے گجرانوالہ میں طویل سیاست کی وہ غلام دستگیر کے معتمد ساتھیوں میں تھے انہیں تھائیراڈ کا موذی مرض لاحق تھا اتفاق ہسپتال میں اکتوبر ٩٠ میں آپریشن ہوا ڈاکٹروں کی غفلت کا شکار ہوئے اور گجرانوالہ کے بڑے قبرستان میں محو استراحت ہوئے۔عظیم چراغ کی لئو بجھے مدتیں گزری ہیں مگر ان کے کردار کا سورج آج بھی روشنیاں بانٹ رہا ہے۔یہ دلیری گفتگو کا فن لکھنے کی معمولی سی طاقت حق کے ساتھ کھڑے ہونے کی ہمت اللہ کی عطا کردہ ہے اور میرے سلطان باپ کی جانب سے۔پدرم سلطان بود