نوجوان صحافیوں کی کہکشاں

Journalists

Journalists

تحریر : عارف رمضان جتوئی

سیاست سے لے کر سماج کے ہر شعبے تک نوجوان قیادت کا پایا جانا حوصلہ افزا اعداد و شمار تصور کیے جاسکتے ہیں۔ اب تقریبا ہر شعبے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد داخل ہوچکی ہے۔ نئے اذہان نئے افکار کو جنم دیتے ہیں اور یوں ترقی یافتہ اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کا عمل وجود میں آتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بڑی تعداد نے شعبہ صحافت میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر جگہ بنائی ہے۔ اخبارات کے تراشوں سے لے کر ٹی وی اسکرین تک، ڈیجیٹل میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ہر جگہ صحت مند اذہان اپنے قلم اور کی بورڈ کے ذریعے سے اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔

ٹی وی چینل پر اب نئے چہرے دکھتے ہیں تو ان میں زیادہ تر نوجوان ہیں۔ اخبارات کے تراشوں پر اگرچے نوجوانوں کی گرفت اتنا مضبوط نہیں مگر ممکنہ طور پر اپنی جگہ بنانے میں وہاں بھی نوجوانوں کو کامیابی ملی ہے۔ ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو وہاں پر 99 فیصد نوجوان طبقہ ہے جو اپنے نت نئے تبصروں، تجزیوں اور معلومات کی فراہمی سے اپنا حلقہ بنائے ہوئے چل رہا ہے۔

نوجوان قلم کار
کئی برسوں سے پرنٹ میڈیا کی فیلڈ میں نئی لہر پیدا ہوئی۔ نوجوانوں پر مشتمل کچھ گروپس نے اپنے طور پر نئے لکھنے والوں کی تحریروں کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور پھر ان کی تحریروں کی اصلاح کر کے انہیں اخبارات میں بھیجنے میں مدد دی۔ ایسے گروپوں نے بڑی تعداد میں نئے لکھنے والے پیدا کیا۔ ہر اس طالبعلم، یا غیر طالبعلم مگر لکھنے کے شوقین فرد کو موقع ملا جس کی شاید ہی کبھی کسی اخبار تک رسائی ممکن ہوپاتی۔ کئی ایک ایسے قلم کار وجود میں آئے جو ملک کے دور دراز کم سہولتوں والے علاقوں میں رہتے تھے اگر ان کو یہ سہولت میسر نہ آتی تو ان کا قلم زنگ پکڑ جاتا اور لکھنے کی خواہش اندر ہی اندر دم توڑ جاتی۔ ان کے پاس صرف سوشل میڈیا کی ہی سہولت تھی اور وہ پروفیشنل طریقہ کار کے ذریعے سے اخبارات یا جرائد تک رسائی نہیں رکھتے تھے۔ ایسے گروپس میں رائٹرز کلب پاکستان، حریم ادب، رائٹرز ورلڈز پاکستان، اسلامک رائٹرز موومنٹ سمیت کئی دیگر گروپس بھی ہیں اور کچھ افرادی طور پر بھی اس حوالے سے کام کررہے ہیں۔ نوجوان قلم کاروں سے سب سے زیادہ فائدہ خود اخبار کو ہوا۔ ان کے آتے ہی اخبارات جو کبھی پیسے دے کر لکھوایا کرتے تھے اب ان کو بڑی تعداد میں مواد مفت میں میسر ہوتا ہے بلکہ اب وہ اپنی مرضی کا جیسا مواد چاہئیں لکھوا لیں اور وہ بھی انتہائی معیاری۔

نوجوان رپورٹرز
قلمکاروں کی طرح ایک بڑی تعداد نوجوان رپورٹرز کی بھی ہے۔ اتنے سارے نئے ٹی وی چینل کیبل پر نمودار ہوئے تو ان کو ایک بڑی تعداد رپورٹرز اور اینکرز کی بھی چاہیے تھی۔ ایسے میں اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اتنی ہی بڑی تعداد میں جامعات نے نوجوان صحافی تیار کیے اور اب وہ اپنی صحافتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نوجوان رپورٹرز کا سب سے بڑا فائدہ ٹی وی چینلز کو یہ ہوا کہ ان کو کم تنخواہ پر رپورٹرز میسر آگئے۔ پھر کچھ ٹی وی چینلز نے ٹرینی کے طور پر واجبی سی رقم کے ساتھ ایک ایک سال بھی چلا لیا۔ نوجوان رپورٹرز کا یہ بھی فائدہ ہوا کہ صحت و تندرستی اور پھر جسمانی پھرتیلا پن کے علاوہ جذبہ اور شوق کی وجہ سے یہ لوگ کہیں بھی رپورٹنگ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔

گزشتہ دنوں بارشوں اور سیلابی صورتحال میں انہیں رپورٹرز نے جسم کے آدھے یا پھر تیسرے حصے تک کے جمع پانی میں کھڑے ہوکر بھی رپورٹنگ کی ہے۔ اب اگر ان علاقوں میں کسی نوجوان سے زیادہ عمر والے کو بھیجا جاتا تو وہ یقینا گھبراتا اور اس عمر میں تقریبا گھبرانا بنتا بھی ہے۔ جسم کے تروتازگی میں تو کہیں بھی کودا جاسکتا مگر جب تھوڑی کمزور آجائے تو ایسے میں کودنے سے قبل سوچنا ضروری سا عمل ہوتا ہے۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو ہر ماحول اور ہر لحاظ سے معاشرے میں خود کو ڈھال کر چلے جارہے ہیں۔ ان کے مسائل اور کچھ احتیاطیں بھی ہیں جن کا زکر مندرجہ ذیل ہوگا۔

نوجوان بلاگر وی لاگر
جدید دور میں صحافت نے بھی خود کو بدلا ہے۔ جدید طرز کی صحافت میں بلاگنگ اور وی لاگنگ کا نیا دل چپس اضافہ ہوا ہے۔ بلاگنگ کی دنیا میں نوجوان کی ایک بڑی تعداد نے قدم رکھا تو انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو مواد میں انقلابی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ جس کا واضح مطلب تھا کہ دیگر زبانوں کی نسبت اردو مواد کی خاصی کمی تھی جو ان نوجوان بلاگرز کی بدولت اب پوری ہونا شروع ہوچکی ہے۔ اس کو نوجوان طبقے کے ساتھ جوڑنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عمررسیدہ افراد کا جدید تقاضوں کو پورا کرنا اور سمجھنا قدرے مشکل تھا۔ بلاگنگ سے کئی ویب سائٹس وجود میں آئیں، معلومات سے بھرپور مواد اپ لوڈ ہوا، پڑھنے والوں کو آسانی سے میسر آنے لگا تو ریڈر اور ویورشپ کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی اور اس کا بہت بڑی حدتک فائدہ خود اسی نوجوان نے حاصل کیا۔ یعنی اپ لوڈ بھی کیا اور پھر پڑھنے کے لیے مواد حاصل بھی کیا۔

وی لاگنگ بھی بلاگنگ کی نئی شکل ہے۔ جو بات لکھ کر بیان کی جارہی تھی اس کو بول کر بیان کیا جانے لگا۔ ا س ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ جیسے جیسے وقت بیت رہا ہے انسان کی رفتار بڑھتی جارہی ہے۔وقت کم ہورہا ہے اور اس کم وقت میں بہت سے کام نمٹانے ہوتے ہیں تو اب جو بات لکھ کر پڑھی جانی تھی وہ بات بول کر سنوائی جانے لگی ہے۔ اور اب وہ سنوانا یا دکھانا بھی محدودیت کی راہ پر گامزن ہوچلا ہے۔ یعنی کچھ ہی منٹوں میں آپ اپنی بات کو مکمل کرتے ہیں بصورت دیگر وہ بات غیر ضروری سمجھی جانی لگتی ہے۔ یہ انسانی فطرت بن چکی ہے کہ طوالت گفتگو بوریت پیدا کررہی ہے۔ وی لاگنگ کے اضافے میں سرفہرست یہ نوجوان کھڑا ہی دکھائے دے گا۔ اس پر شاید اشاریوں میں بھی غیر نوجوان پایا جائے، اس کی ایک وجہ یہ ہے بھی کہ رپورٹنگ کے شوقین کو فیلڈ میں جگہ نہ ملی تو اس نے خود سے وی لاگنگ کرنا شروع کردیا۔ پھر اس پر کوئی قدغن نہیں، کوئی پابندی یا اعتراض نہیں جیسا چاہئیں بولیں اور جیسی چاہئیں محتاط رہتے ہوئے ویڈیو بنائیں اور پھر اسے اپ لوڈ کردیں۔ اس کے لیے سوشل میڈیا بہترین فورمز موجود ہیں۔ اس سے یہ ہوا کہ ملکی سطح پر کئی سیر و سیاحت کو فروغ ملا، معلومات کا تبادلہ تیزی سے بڑھا۔ بودو باش کا اندازہ ہوا اور گاؤں دیہات کے درمیان جو خلا تھا وہ بڑی آسانی سے کم ہوگیا۔
نوجوان سوشل میڈیا ایکٹویٹس

سوشل میڈیا کو صحافت کی انتہائی غیر معتبر صنف کہا جاسکتا ہے۔ یہاں جھوٹ بہت چلتا ہے، جعلی اور فیک نیوز کا تبادلہ بڑی آسانی سے ہوتا ہے اور پھر اس پر پورے پورے مفروضے بھی تیار ہوجاتے ہیں مگر اس کی طاقت کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سوشل میڈیا پر زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی پائی جاتی ہے۔ یہ نوجوان اپنی اپنی محدود معلومات کے بل بوتے پر اگرچے بہت کچھ بتا رہے ہوتے ہیں مگر یہ سب سے آسان ذریعہ ہے اپنی بات دوسروں تک پہچانے کا۔ محدود مگر سوشل میڈیا ایکٹویٹس کی جو بھی تعداد پائی جاتی ہے وہ تمام کے تمام نوجوان ہیں۔ ان کی بات پر ایک طبقہ یا ایک حلقہ بھروسہ کرتا ہے اور اس معلومات کو حوالے کو طور پراستعمال کرتا ہے۔ کچھ دنوں سے اب یہ سوشل میڈیا ایکٹویٹس پوری پوری تحریکیں چلا رہے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال حرمت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاملے پر سوشل میڈیا ایکٹویٹس کی جانب سے احتجاج کی کال دی گئی اور پھر تبت سینٹر کراچی پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی۔

گزشتہ برسوں کے دوران انہیں سوشل میڈیا ایکٹویٹس پر حملے بھی کیے گئے اور کئی ایک موت کے منہ بھی گئے تو وجہ یہ تھی کہ ان سے جہاں لوگوں کو تقویت ملتی ہے وہی کچھ لوگ خائف بھی رہتے ہیں۔ یعنی یہ اپنے آپ میں ایک مکمل تحریک ہوتے ہیں۔ ان کا بیانیہ بھی ویسا اثر انداز ہوتا ہے جیسے کسی اخبار کا تجزیہ یا ٹی وی چینل پر چلنے والے ٹاک شو کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ان تمام اصناف کے نوجوانوں میں جو مسائل ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔ نوجوان طبقہ چونکہ اپنی عمر کے اس خاص حصے میں ہوتا ہے جب انسان جو چاہے کر لے تو میں کئی احتیاطیں جو ہونا چاہئیں وہ نہیں پائی جاتیں۔ ایسا کچھ بولنا جو کسی مہذب معاشرے کے باسی کو زیب نہیں دیتا مگر یہاں اس کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ بد تہذیبی کا عنصر پایا جانا۔ بات بات پر اپنے مخاطب سے بے مروتی سے بات کرنا۔ لباس میں شائستگی کی کمی کا ہونا اب عام ہوتا جارہا ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ وہ دکھانا وہی چاہ رہے ہیں بلکہ نوجوان ہونے کے ناتے خود کو خوب سے خوب دکھانے کی تگ و دو میں لباس میں احتیاط برتنا نظر انداز ہوجاتا ہے اور یوں یہ ایک بہت بڑی خرابی بن جاتا ہے۔ افرادی، اجتماعی، سیاسی طور پر یا پھر اداروں کے حوالے سے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں البتہ جذباتیات میں حد سے آگے بڑھ جانا شدید نقصان کا باعث بن جاسکتا ہے۔

Journalism

Journalism

صحافت کا شعبہ عظیم ہے اور آج کا نوجوان اس کا امین ہے۔ اس امانت میں خیانت ہونے سے بچانے کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آپ کو ہی اس کا خیال رکھنا ہے۔ اس کی ساکھ، تہذیب، مقصد اور تربیت کا آپ کو ہی خیال کرنا ہے۔ آپ ہیں مگر آپ سے قبل یہ عظیم شعبہ ہے۔ یہاں پر اس شعبے سے جڑے بڑی مسندوں پر براجمان شخصیات سے ضرور کہوں گا اپنے ان بچوں کے جذبات کا خیال رکھیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ اگر یہ آپ سے زیادہ کارکردگی دکھا رہے ہیں تو آپ ان سے پروفیشنل جیلسی دکھائیں بلکہ ملکی و صحافتی ترقی کے لیے ان کو ہاتھ پکڑائیں اور آگے بڑھائیں۔ آپ کا وقت تھا آپ خوب تھے اور ہمیشہ رہیں گے مگر اب ان کا وقت ہے اور ان کو خوب سے خوب تر ہونے میں ساتھ دیں۔ معاشی و اخلاقی سطح پر اپنی حمایت کا کھل کر اظہار کریں تاکہ یہ نوجوان مزید بہتر سے بہتر ہوکر کسی کی سرپرستی میں اپنی صلاحیتیوں کا کھل کر اظہار کر سکیں۔

تحریر : عارف رمضان جتوئی