شاعرِ مشرق نے قرآنی تعلیمات کے بحرِ زخار میں غواصی کر کے چند لو لوۓ آبدار چنے جو نہ صرف نوجوانوں کے لیے سرمایہء حیات ھیں بلکہ مشعلِ راہ ھیں. یہ ایک مسلمہ حقیقت ھے کہ نوجوان ھی کسی قوم کا سرمایہء افتخار ھوتے ھیں قوم کا دامن انہی کے دامن سے وابستہ ھے. اقبال نوجوانوں نسل کے ھر فرد میں خودی،بلند ھمتی اور طاقت کا جذبہ دیکھنے کے متمنی تھے.
اگر جواں ھوں میری قوم کے جسورو غیور قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں ایک شعر میں یوں لکھا ھو تری خاک کے ھر ذرے سے تعمیرِ حرم دل کو بیگانہ اندازِ کلیسائی کر
اقبال کی تعلیمات کی روشنی میں آج کے نوجوان کو اگر زندہ رھنا ھے تو اسے اپنے قلوب و اذہان کو نورِ ایمان سے منور کرنا ھو گا. یقین ھی وہ دولت ھے جس سے غلامی کی زنجیریں کٹ سکتی ھیں.اصل زندگی روحانی زندگی ھے.زندگی محض سانس کے آنے جانے اور ماہ و سال کا نام نہیں بلکہ زندگی عبارت ھے جہدِ مسلسل سے.قوم اسی صورت میں عظمت و رفعت کے میدان میں زندہ رہ سکتی ھے.
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں ھوتی ھو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
مگر آج کے نوجوان نے فکرِ اقبال کو بھلا دیا یوں اقبال کی تعلیمات ایک تاریخ بن کر رہ گئی جو کہ سال میں ایک یا دو بار یادِ اقبال کے نام سے منا لی جاتی ھے.ایک شاعر نے کیا خوب کہا تھا
کبھی اک سال میں ھم مجلسِ اقبال کرتے ھیں پھر اس کے بعد جو کرتے ھیں وہ قوال کرتے ھیں
قارئین محترم! یہی وجہ ھے کہ آج کے نوجوان کی بے نیازی بے حسی میں تبدیل ھو گئی ھم اپنے ھی بازوؤں کو کاٹتے چلے جا رھے ھیں. اپنی بداعمالیوں کی سزا ایسے وطن کو دے رھے ھیں جس کی بنیاد قرآن کی آیتوں,خلوص کی آہوں اور محبت کے آنسوؤں پہ استوار تھی. شاعرِ مشرق کے خوابوں کی تعبیر وطنِ عزیز کے درودیوار اس بات کے شاکی ھیں کہ آج کے نوجوان نے ان سے وفا نہیں کی.عرش ایک مدت سے لرز رھا ھے ھم ایک مدت سے شعلوں کی زد میں ھیں ھمارے دل اندھے ھو چکے ھیں اور نوجوان انگاروں کو لعلِ بدخشاں سمجھ رھے ھیں.
آج کے نوجوان کی حالت اس نیم ترکش کی سی ھو گئی جس کا کوئی ہدف ھی نہ ھو. وہ نوجوان جو شاہین کی مانند محوِ پروازِ فلک ھوتا ھےجس کی پرواز تیر کی نوک کی مانند ھونے کی وجہ سے سارے عالم پہ دھاک بٹھاتے ھوتے ھوۓ کامیابیوں کے پرچم لہراتی ھے وھی پرواز بے بسی کا لازوال نمونہ بن کر صدا با صحرا جاتی ھے وہ نوجوان جو ظلم و ناانصافی کے خلاف ڈٹ جانے والا ھوتا ھے اور باطل کے سامنے سر جھکانے کی بجاۓ سینہ سپر ھونے کی تمنا رکھتا ھے آج وہی اپنی خودی کے مٹ جانے سے پریشاں ھو کر ذلت و رسوائی کا سامنا کرتا ھے.
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ھے؟ خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ھے؟ عبث ھے شکوہء تقدیرِ یزادں تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ھے؟
اقبال کی تعلیمات میں مولاۓ روم, رازی ,امام غزالی وغیرہ جیسے اولیاۓ کبار کا رنگ غالب ھے جہاں اقبال نوجواں کو محبت الہی کے لا محدود سمندر میں غوطہ زنی پہ آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ھیں وھیں یہود و نصاری کی ذہنی غلامی سے بچ نکلنے کی تلقین بھی کرتے ھیں.اقبال فرماتے ھیں
علاج آتشِ رومی کے سوز میں ھے ترا تری خرد پہ ھے غالب فرنگیوں کا فسوں
اقبال نے راہ بھولے نوجوان کو اپنی شاعری کے ذریعے اصل منزل سے آشنا کرنے کی بھرپور کوشش کی. اقبال نے درحقیقت اپنے فلسفہء خودی سے بے شمار راز اور حقائق سےپردہ اٹھا لیا.اقبال کے نزدیک مردِ مومن کا اصل مقام وہ ھے جہاں بندے کی رضا خدا کی رضا ھو اور خدا کی رضا بندے کی رضا ھو.
خودی کو کر بلند اتنا کہ ھر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ھے؟ اقبال نے اسلامی نظریہ کو منفرد انداز میں پیش
فرمایا.انھوں نے اپنے احساسات و جذبات کا مکمل اظہار کرتے ھوۓ شاعری کے ذریعے عمل کا پیغام دیا .اصولی طور پہ خالقِ کائنات نے بھی عمل کی اہمیت کو بیان فرمایا کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ھے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ھے لہذا جو نسل عمل سے عاری ھو جاۓ اس کی تقدیر بھی بدلا نہیں کرتی. تقدیر اللہ علم کو کہتے ھیں اور علم کسی کا اختیار ہر گز سلب نہیں کرتاچنانچہ انسان کو عمل کے اختیار میں آزادی حاصل ھے.لہذا اب عمل کا اختیار بندے کا اپنی تقدیر بنانے کا ذریعہ بھی ھے. چنانچہ اقبال فرماتے ھیں
تو اپنی سر نوشت اب اپنے قلم سے لکھ خالی رکھی ھے خامہ حق نے تری جبیں
اقبال حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے سچے عاشق تھے.انہوں نے امتِ مسلمہ کے نوجوانوں کی بقا کی خاطر اپنی شاعری کے ذریعے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو عملی میدان میں اپنا آئیڈیل ٹھہرانے کا پیغام دیا اور مغربی تہذیب و تمدن اور مارڈرنزم کے نام پہ بے حیائی کا واضح رد فرمایا.
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ھے ترکیب میں قومِ رسولِ ھاشمی
اقبال کا دل محبتِ الہی سے سرشار تھا فکرِ اقبال یہ تھی کہ مسلمان کا قلب حقیقی معنوں میں روشن ھو جاۓ چنانچہ وہ دنیا کی حقیقت سے پوری طرح آشنا ھو جاۓ. اقبال فرماتے ھیں
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور ,دل کا نور نہیں خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ نہیں ممکن امیری بے فقیری
المختصر فکرِ اقبال اپنے خالق سے محبت اور معرفت الہی کا حصول ھے اور افکارِ اقبا ل کی روشنی میں اپنی ذات کا عرفان حاصل کرنے کے بعد ہی رب کی معرفت کا حصول ممکن ھے.