تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری وزارت داخلہ کا یہ کہنا کہ طلبا ء دہشت گرد تنظیموں کی طرف راغب ہو رہے ہیں اس انتہائی تشویش ناک معاملے پر اب فکر لاحق ہوئی ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کیسے اور کیونکر ملک دشمن دہشت گردانہ تنظیموں میں شمولیت کرکے قتل و غارت گری میں ملوث ہورہے ہیں ایوبی آمریت کے دور میں بھی جب سٹوڈنٹس یونینز کے تحت منظم ہوکر طلباء آمرانہ دور کے خلاف سڑکوں پر نکلے تو اسے بالآخر گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے اور اسے اقتداری تخت سے دستبردار ہونا پڑا۔ایوب خان کو ڈیڈی کہنے والے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو جب شملہ معاہدہ پر اختلاف کے بموجب وزارت خارجہ سے مستعفی ہو گئے تو وہ بذریعہ ٹرین کراچی کے لیے روانہ ہوئے لاہور کے اسٹیشن پر اس کا آنسوئوں بھرا رومال 10000روپے میں بکاراقم اور کئی دوسرے طلباء راہنما اس کے ساتھ کراچی گئے وہاں بھٹو صاحب کا ڈائو میڈیکل کالج میں پہلا خطاب ہواجہاںسٹوڈنٹ لیڈر ڈاکٹر رشید حسن خان نے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیے اور راقم و معراج محمد خان اس کے ساتھ بیٹھے گزارشات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ طلباء اور ان کے راہنمایان ہی تھے جنہوں نے ایوب کواقتدار سے الگ اور مسٹر بھٹو کو عوام میں پاپولر بناڈالاجس نے پی پی پی بنا کر 1970کے انتخابات میں مغربی پاکستان کے تمام پرانے جغادری سیاستدانوں ،جاگیرداروں اور وڈیروں کو چاروں شانے چت کرڈالا۔یہ طلباء یونینیں اور ان کے راہنما تھے جو مشرقی پاکستان میں البدر و الشمس کے نام پر پاکستانی آن کے نام پر قربان ہو گئے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حادثے کے بعد مسٹر بھٹو مقتدر ہو گئے تو یہ طلباء یونینیں ہی تھیں جنہوں نے اس کے بھی آمرانہ اقدامات کے خلاف مسلسل اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔
طلباء یو نینز کے انتخابات جیتنے والے طلباء راہنما ہی تھے جنہوں نے مختلف سیاسی پارٹیوں میں نیا خون شامل کیا۔جاوید ہاشمی شیخ رشید فرید پراچہ حافظ سلمان بٹ احمد بلال محبوب ،شفیع نقی جامعی،لیاقت بلوچ ،چوہدری نثار علی خان ،حفیظ خان ،حسین حقانی ،شیخ مجیب الرحمٰن سب پاکستان میں طلباء یونینز کے انتخابات جیت کر ہی سیاست میں آئے مگر کبھی کبھار “ماس میں غدودیں “بھی نکل آتی ہیں اس لیے موخر الذکردونوں پاکستانی دھرتی کے غدار نکلے مسٹر بھٹو کے خلاف پہلا احتجاج نشتر کالج ملتان سے اٹھا اور پورے پاکستان کے میڈیکل کالج 11روز تک بند رہے 1977کے عام انتخابات میں بیشتر طلباء راہنما پاکستان قومی اتحاد کے امیدوار بنے اور اس دور میں چلنے والی نظام مصطفی تحریک کا ہراول دستہ ثابت ہوئے۔جنرل ضیاء الحق نے شب خون مارا اور قابض ہوگیا9جماعتو ں پر مشتمل قومی اتحاد کے بیشتر راہنما ضیا ء الحق کی کابینہ میں وزیر بن گئے مگر ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف بھی طلباء سرگرم رہے وہ طلباء کی طاقت سے خائف تھے اسلئے طلباء انجمنوں کے انتخابات پر پابندی لگادی۔
ائیر مارشل اصغر خان نے قومی اتحاد کو خیر باد کہہ کر اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک ڈالی۔ضیا ء الحق فضائی حادثہ میں اگلی دنیا کو سدھار گئے جس کے بعد انتخابات کے نتیجہ میں کبھی محترمہ بینظیر بھٹو اور کبھی نواز شریف مقتدر رہے مگر کسی نے طلباء انجمنوں کی بحالی کے لیے عملاً کوشش نہ کی کہ سبھی طلباء قوت سے خائف تھے آصف علی زرداری کی صدارت کے دور میں یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم کا حلف اٹھاتے ہوئے طلبا ء انجمنوں کے انتخابات کروانے کا اعلان کرڈالا مگر عملا ً یہ معاملہ ٹھپ ہی رہا۔یہی وہ وجہ ہے جس کے بموجب نوجوان طلباء مختلف محیر العقول نام نہاد معرکے کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کا آسان نوالہ بننے لگے پھر طلباء کا یہ تاثر کہ پڑھ لکھ کر سرکاری ملازمت تو ملے گی نہیں کہ آج تک کسی حکمران نے میرٹ پر کام ہی نہیں کیااسلئے طلباء تاریک مستقبل کی وجہ سے انہیں جہاں مفاد محسوس ہوا اسی طرف چل نکلے دہشت گرد تنظیمیں انہیں بھاری مفادات اور ڈھیروں رقوم کا وعدہ ہی نہیں کرتیں بلکہ عملاً دیتی ہیںجو آج کے دور کی کسی بھی ملازمت کے معاوضہ سے بیسیوں درجہ زیادہ ہو تا ہے اس لیے ایسے غریب طلباء جن کے ماں باپ ان کے تعلیمی اخراجات تک بھی پورے نہیں کرسکتے وہ ایسی نام نہاد تنظیموں کے بہکاوے میں آکر ان کے ہاتھوں میں کھیلنا لگ جاتے ہیں کہ ان کے پاس چمک کے علاوہ بھی کئی حربے ہیںجو ایک دفعہ ان میں پھنس جاتا ہے وہ ان کے شکنجے سے باہر نکل ہی نہیں سکتا کہ ان دہشت گرد تنظیموں نے اس نوجوان سے کئی وارداتیں کروالی ہوتی ہیںاور پھر اگر کوئی ان سے علیحدہ ہو بھی جائے تو انہیں اپنی جان کا خطرہ ہوتا ہے۔
آمدم برسر مطلب یہ کہ نوجوان نسل بالخصوص طلباء کو دہشت گرد تنظیموں کا تر نوالہ بننے سے روکنے کے لیے صرف اور صرف طلباء انجمنو ں کے انتخابات ہی ہیں۔اس میں حکومتوں کو ڈر ہے کہ طلباء منتخب یونینیں ان کے خلاف تحریک چلائیں گی اب ایسی باتوں کو بھول جانا ہو گاکہ اس دور میںایسا ناممکن ہے طلباء انجمنوں کے انتخابات سے قطعاً تعلیم کا حرج نہیں ہوتا اور نہ ہی طلباء آپس میں سر پٹھول کرتے ہیںجو ایسا کرے گا وہ منتخب ہو ہی نہیں سکتاطلباء کی تعلیم کے ساتھ ا ن کو انتخابات کے ذریعے تقاریر و دیگر بیسیوں مصروفیات میں رہنا ہوتا ہے اور اس طرح مختلف تنظیموں اور انجمنوں کے تحت طلباء کا مصروف رہنا ہی فائدہ مند ہے تاکہ ان کا آپس میں ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کے لیے بذریعہ انتخابات مقابلہ ہوتا رہے اور طلباء بہتر سے بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہیں گے اس سے کالجوں یونیورسٹیوں کا ماحول بھی پرسکون ہو جائے گا اور کوئی ایسی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث نہ ہوسکے گا کہ اس کے لیے دیگر مصروفیات ہوں گی جس میں وہ تعلیم کے علاوہ فارغ اوقات میں بھی مصروف رہے گا۔قوم حکمرانوں سے دردمندانہ اپیل کرتی ہے کہ طلباء یونینوں کے انتخابات کو فوری بحال کرے کہ اس میں ملک و قوم کا ہی فائدہ ہوگا۔طلباء محب وطن ہوتے ہیں اور ملک کے مفاد اور اپنی تعلیم کے علاوہ کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتے اور سیاسی جماعتوں کو بھی پڑھے لکھے اور جرآت مند راہنما میسر آتے رہیں گے۔