ہم تیرے شہر میں آئے ہیں مسافر کی طرح

Pitras Bukhari

Pitras Bukhari

تحریر : محمد شہزاد اسلم راجہ
احمد شاہ بخاری جو کہ پطرس بخاری کے نام سے اردو کے معروف مزاح نگار تھے سے کسی نے پوچھاکہ وہ اپنے آبائی شہر ”مرید پور”کا ذکر کیوں نہیں کرتے پر پورا ایک مضمون ”مرید پور کا مرید ” لکھ ڈالا ۔میں بھی اپنے کالموں پع مشتمل مجموعہ ”آوارگی” کا مصنف بننے کے بعد اپنے آبائی شہر احمد پور شرقیہ گیا ، یقین جانیئے کہ وہاں میرا حال وہ نہ ہوا جو ”مرید پور” کے مرید کا ”مرید پور” میں ہوا ۔ شہر احمد پور شرقیہ جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور کی ایک تحصیل ہے جو کہ میرے لاہور ہجرت کرنے سے پہلے بھی سرکاری وسائل سے محروم تھا اورآج بھی سرکاری وسائل سے محروم ہی ہے ۔ یہاں کے عوامی نمائندگان عوام سے وسائل کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کا وعدہ تو کرتے ہیں لیکن یہ وعدے کم ہی وفا ہوتے آئے ہیں۔

وہی گلیاں وہی بازار جن میں میں نے اپنا بچپن گزارا اب خستہ حال ہو چکی ہیں ہر طرف گنگی کے ڈھیر پڑے ہیں ، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، مگر عوامی نمائندے حکام بالا تک سب اچھا کی رپورٹ دیتے ہیں ۔ یقین کیجیئے کہ میں جب سے واپس آیا ہوں اپنے آبائی شہر احمد پور شرقیہ کی وسائل کی محرومیوں اور اس کی خستہ حالی پر میرا دل کُڑھ ہی رہا ہے ۔شہر کی زبوں حالی دیکھ کر مجھے تو یہ ہی محسوس ہوا کہ میں اپنے اس شہر میں مسافر کی طرح آیا ہوں اور شہر کی خوشحالی ، خوبصورتی اور وسائل کی محرومیوں کے ازالے سے ایک ہی خواہش کی کہ ایک بار ملاقات کا موقع دے دے۔

صاحبو! بات چلی ملاقات کی تو میں مصنف بننے کے بعد احمد پور شرقیہ دو اقساط میں مختصر وقت کے لئے گیا تو بہت سے چاہنے والوں ملنے والوں، دوستوں اور محبت کرنے والے جن لوگوں سے ملاقات ہوئی وہ مجھے تا دم آخر یاد رہے گی۔ احمد پور شرقیہ جانے کی پہلی قسط میں میرے ہمراہ میری شریک حیات، میرے بڑے بھائی ڈاکٹر آصف اسلم اور ملکِ پاکستان کے نوجوان انٹرنیشنل ثناء خوانِ مصطفی علی رضا قادری تھے ۔ 21 مارچ2015 ء کی شب ہم احمد پور شرقیہ پہنچے اور احمد پورشرقیہ میں پہنچتے ہی سب سے پہلی ملاقات جناب یونس خان صاحب سے ہوئی ، ہم دونوں بھائی چونکہ پڑھائی میں کمزور ہوا کرتے تھے اس لئے جناب یونس خان صاحب ہمیں ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔

Library

Library

دوسری ملاقات بہت ہی زیادہ شفقت فرمانے والے، نیک سیرت ، نرم خو جناب ساجد درانی قادری صاحب سے ہوئی جو کہ ہمارے شہر احمد پور شرقیہ کی میونسپل لائبریری میں بطور لائبریرین فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ ساجد دارنی صاحب نے ملاقات کے دوران ہم سب پر ایک بات واضح کی ”آپ لوگ احمد پور شرقیہ کی تنگ اور تارک گلیوں میں پڑے گندگی کے ڈھیر سے اٹھنے والے بدبو کے بھبھکوں ، ٹوٹ پھوٹ کی شکار سڑکیں اور شہر کی زبوں حالی کو ہی مدِ نظر نہ رکھیں بلکہ اس شہر سے بہت قیمتی نگینے ادب کے افق پر چمکے ہیں جو اسی شہر نے جنم دئیے ، ان میں نقوی احمد پوری، اظہر ادیب ، مظہر مسعود،عاصم شجاع ثقلین درانی، سفیر لاشاری ، ظفر لاشاری ، رفیق احمد پوری ، ثاقب قریشی ،تنویرِ سحر، ممتاز عاصم ، جہانگیر مخلص ، باسط بھٹی ، سجاد راکب ،جمشید احمداور شہزاد عاطرشامل ہیں”۔

رات گہری ہوئی تو ہم جناب ساجد درانی صاحب سے اجازت طلب کر کے محلہ سرور شاہ کی ایک گلی میں اپنے آبائی مکان میں جا کر رات بسر کی۔ اگلی صبح ہمارے میزبان جناب شہزاد عاطر تھے ہم ان کی میزبانی میں احمد پور شرقیہ سے اوچ شریف ، ہیڈ پنجند اور رحیم یار خان کے لئے روانہ ہوئے پہلی قسط میں احمد پور شرقیہ میں ہمارا قیام بس اتنا ہی رہا۔دوسری قسط 12 اپریل 2015 ء اتوار والے دن کی ہے جب مجھے اپنی فیملی کے ہمراہ اپنے چچا زاد بھائی کی شادی میں شرکت کے لئے دو دن کے جانا تھا ۔ شادی میں شامل ہونے کی مصروفیات کے باوجود مجھے جن دوست، احباب اور پیار کرنے والوں سے ملاقات کرنے کا موقع ملا ان میں جناب جان محمد چوہان صاحب جو کہ فلاحی کاموں ، انسانیت کی خدمت میں ہمیشہ صفِ اول میں رہتے ہیں ان سے ہوئی جان محمد چوہان چونکہ قد کاٹھ میں چھوٹے ہیں

اس لئے اُن کو میرے ادبی استاد اور دوست شہزاد عاطر ”چھوٹے قد کا بڑا آدمی” کا لقب دیتے ہیں اور آخری خبر آنے تک یہ معلوم ہوا ہے کہ جان محمد چوہان کوان کی خدمات کے صلہ میں اس سال حکومتِ پاکستان کی طرف سے سول اعزاز بھی دیا جانے والا ہے جو نا صرف جان محمد چوہان کے لئے اعزاز کی بات ہے بلکہ میرے سوہنے شہر احمد پور شرقیہ کے لئے بھی ایک اعزاز ہے ۔ جان محمد چوہان سے ملاقات کے ساتھ ساتھ شہر کی معروف اور بزرگ سیاسی شخصیت جناب ملک رمضان صاحب اور احمد پور شرقیہ میں صحافت کی جان جناب شیخ عزیزالرحمٰن صاحب سے بھی ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔

Pakistan

Pakistan

صاحبو! ملاقات کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا ، چچا زاد کی بارات سے فارغ ہو کر جو کچھ سامان خریدنے کو شہر کے جانے مانے چوک ”چوک منیر شہید” گیا تو وہاں ہمیں سراپا محبت ، علمی و ادبی شخصیت میرے والد مرحوم کے بچپن کے دوست جناب رائو عبد المنان صاحب نے تاڑ لیا اور فورآ فون کر کے اگلے دن شام کی ملاقات کا پروگرام طے کر لیا۔ وقتِ مقررہ پر جب میں را ئو عبد المنان صاحب سے ملاقات کو گیا تو وہاں پر میرے محترم انکل اور دوست جناب میاں ندیم یونس صاحب کی گاڑی میں بھائی محمد آصف کے ہمراہ ”وسیب میلہ” میں گئے وہاں پر میرے ایک پرانے سنیئر ساتھی جناب قاضی محمد عارف صاحب جن کے ساتھ میں نے درس و تدریس کا کام کیا اور صد قابلِ احترام ، علمی و ادبی شخصیت جناب ڈاکٹر عبد الرئوف صاحب ہمارے یعنی میرے سمیت را ئو عبد المنان، میاں ندیم یونس اور بھائی محمد آصف کے منتظر تھے ۔

اِن دونوں احباب نے ہم سب کا وسیب میلہ میں گرمجوشی سے استقبال کیا ۔ وسیب میلہ میں جو وقت گزرا اس میں کچھ پرانی یادیں تازہ ہوئیں ، کچھ سعودی اور یمن کی جاری جنگ میں پاکستان کا اپنی فوج بھجوانے پر گرما گرم بحث ہوئی ۔ ہم میں سے ہر ایک کا نقطہ نظر ایک دوسرے سے مختلف تھا ، ایک دوسرے سے اختلاف ضرور تھا مگر لڑائی جھگڑا نہیں تھا ، اس ملاقات میں ہم سب نے محبتیں بھی بانٹیں اور خوشیاں بھی سمیٹیں۔

مصنف بننے کے بعد اپنے آبائی شہر کی محبتیں ایسی سمیٹیں کہ جناب شہزاد عاطر،جناب یونس خان صاحب، جناب ساجد درانی قادری صاحب، جناب جان محمد چوہان صاحب، جناب ملک رمضان صاحب، شیخ عزیزالرحمٰن صاحب، جناب رائو عبد المنان صاحب، جناب میاں ندیم یونس صاحب، بھائی محمد آصف،جناب قاضی محمد عارف صاحب اور جناب ڈاکٹر عبد الرئوف صاحب کی محبتیں بھولے سے نہیں بھولیں گی اور میں پطرس بخاری کی طرح نہیں کروں گا بلکہ احمد پور شرقیہ آتا جاتا رہوں گا۔ اپنے اس شہر کی ترقی، فلاح و بہبود کی خاطر ، وسائل کی محرومیوں کے ازالے کی خاطر اپنے قلم کو اٹھاتا رہوں گا۔

Muhammad Shehzad Aslam

Muhammad Shehzad Aslam

تحریر : محمد شہزاد اسلم راجہ