تحریر : فاطمہ خان ہماری زندگی خوشی اور غم کا مجموعہ ہے کبھی ایسے خوشیوں بھرے لمحات آتے ہیں کہ لگتا ہے کہ زندگی میں غم کا شائبہ تک نہیں ہے اور کبھی کبھی دکھ بھری دوپہریں اتنی طویل ہوجاتی ہیں کہ انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شائد کوئی خوشی اسے نصیب ہی نہ ہو.جس طرح زندگی ایک حقیقت ہے ایسے ہی موت ایک تلخ حقیقت ہے.جن کے پیارے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں.وہ جس دکھ اور تکلیف سے گزرتے ہیں اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا.ایسا ہی ایک کرب ناک لمحہ چار سال پہلے میری زندگی میں آیا تھا جب اچانک سے میرا بھائی مجھے دائمی غم کا صدمہ دے کر ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے چلا گیا.میرا بھائی یاسر میرا سب سے اچھا دوست اور ساتھی تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اس کی موت کے محض دو ہفتوں بعد میں نے اس کے لئے جنگ میں ایک مضمون لکھا تھا جسے خاصا,پسند کیا گیا تھا مگر میرے لئے وہ میری زندگی کی مشکل ترین تحریر تھی اور اسے لکھتیہوےْ میں جس تکلیف سے گزری تھی وہ ناقابل بیان ہے.اور شائد ایسی ہی تکلیف سے میں اب بھی گزر رہی ہوں.یاسر بہت چھوٹا سا تھا جب اللہ نے بیماری کی شکل میں اسے زندگی کی پہلی آزمائش سے گزارا اور پھر اسی آزمائش کو سہتے سہتے اس کی تمام عمر گزر گئی۔
خصوصی بچوں کے بارے میں عموماً لوگوں کی راےْ بہت مختلف ہوتی ہے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شائد ایسیبچے کچھ کر نہیں سکتے اور گھر والے ان کی معزوری پر ہر لمحہ شکوہ کناں رہتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے.یہ بچے کسی نہ کسی معزوری کا شکار ضرور ہوتے ہیں مگربہت ذہین اور فرمابردار ہوتے ہیں کم از کم اپنے بھائی کے معاملے میں میرا تجربہ مجھے یہی بتاتا ہے کیونکہ وہ ہم تمام بہن بھائیوں کی نسبت سب سے زیادہ ذہین تھا.یاسر کا حساب بہت اچھا تھا ایسا لگتا تھا اسے پورا,کیلنڈر حفظ ہے.مجھے یاد ہے جب مجھے کسی تاریخ کا دن معلوم کرنا ہوتا تھا تو کیلنڈر دیکھنے سے پہلے یاسر مجھے اس کا جواب دے دیتا تھا۔
Politics
ملکی حالات اور سیاست میں اس کی دلچسپی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی.ہمارے گھر جو بھی مہمان آتا تھا وہ یاسر کی معلومات عامہ سن کر حیران رہ جاتا تھا مگر حیران تو وہ بہت حوالوں سے سب کو کیا کرتا تھا اور اس دنیا کو اچانک سے چھوڑ کر اس نے ہم سب کو حیران ہی تو کیا تھا.میں تھوڑی سی لاپرواہ طبعیت کی مالک ہوں.مگر یاسر چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کو بھی سنبھال کر رکھتا تھا اکثر وہ چیزیں جو میں رکھ کر بھول جاتی تھی وہ مجھے یاسر ہی ڈھونڈ کر دیتا تھا.اس کے جانے کے بعد اب میری چیزیں اکثر گمشدہ ہی رہتی ہیں اب کوئی مجھے میری لاپتہ چیزیں ڈھونڈ کر نہیں دیتا.اس بار اس کی چوتھی برسی آ رہی ہے اور ساتھ میں ستائیس رمضان المبارک بھی ہے.اس کی موت سے لے کر اب تک اس کی تمام برسیاں رمضان کے مہینے میں ہی آ رہی ہیں۔
اسے رمضان کے روزے رکھنے کا بہت شوق تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو ماہ صیام کا ایک روزہ چھوڑنا بھی گناہ سمجھتے ہیں.رمضان سے محض کچھ دن پہلے ہی اس کا انتقال ہوا تھا.فیض احمد فیض کے بڑے بھائی بہت کم عمری میں اس دنیا سے چلے گئے تھے جس کا فیض احمد فیض کو بہت صدمہ تھا اور وہ اکثر گھنٹوں ان کی یاد میں بیٹھے روتے رہتے تھے. انہوں نے اپنے بھائی کے متعلق لکھا ہے. اور اس دکھ سے میری آنکھ کا گوشہ تر ہے اب میری عمر میرے بھائی سے کچھ بڑھ کر ہے۔
مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ اب میری زندگی اسی دکھ میں گزرے گی کہ میری طبعی عمر میرے بھائی کی عمر سے کچھ بڑھ کر ہے.میرا یہ بھائی بہت ہنس مکھ تھا اور ہر بات پر ہنسنا مسکرانا اس کی عادت تھی یہی وجہ تھی کہ کفن میں لپٹا اس کا وجود بھی مسکرا رہا تھا.بھلا مرنے کے بعد بھی کوئی ایسے مسکراتا ہے جیسے کہ وہ مسکرا رہا تھا.وہ تو جنت میں چلا گیا مگر اپنی یادوں کے ان مٹ نشانات چھوڑ گیا.اب بھی اس کا کوئی ذکر کرتا ہے تو آنسووں پر قابو نہیں رہتا. .وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے یہ ایک حقیقت ہے مگر اس حقیقت کے ساتھ زندگی گزارنا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ مشکل ہے. جدائی آنے کے دن نہیں تھے یہ تیرے جانے کے دن نہیں تھے وہ جن کے آنے پر اشک برسیں وہ ابر چھانے کے دن نہیں تھے بہار نے تو ابھی دی تھی دستک خزاں کے گانے کے دن نہیں تھے وہ تیرا ہنس ہنس کر بات کرنا ہنسی گنوانے کے دن نہیں تھے اداس ہے اب یہ سارا عالم یہ غم منانے کے دن نہیں تھے۔