تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر بڑی مشہور ضرب المثل ہے کہ خربوزہ چھری کے اوپر ہو یا نیچے کٹتا تو خربوزہ ہی ہے اب چھری تو کٹنے سے رہی یہی حالات آجکل کچھ میرے شہر کے ہیں ابھی کل کی بات ہے کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ رکشہ میں بیٹھ کر شہر کی جانب آرہا تھا کہ اچانک ایک نوجوان نے کس کر رکشہ کی سائیڈ سے کھینچنا شروع کر دیا میں نے پوچھا کہ بیٹا کیوں روک رہے ہو تو وہ بڑے تحکمانہ لہجے میں بولا کہ بیس روپے کی پرچی کٹوائو تب رکشہ شہر کی جانب جا سکے گا میں نے اس سے کہا کہ بیٹا ابھی تو ٹھیکے ہوئے نہیں تم کس بات کی ضد لے کر بیٹھ گئے ہو وہ کہنے لگا چاچا تینوں پتہ تے ہے وے کہ پرسوں دے چیئر مین بہہ گئے نے ایس لئی پرچی لگ گئی اے ، میں نے کہا کہ بیٹا کیا میاں امجد لطیف کے حکم پر ان پرچیوں کی وصولی شروع کی ہے آپ نے ؟ تو کہنے لگا تہانوں ایدھے نال کی میں پرچی تے رکشے والے کولوں منگی اے تسی چپ کر کے بہوو، مہیں نے کہا کہ بیٹا پوچھنا تو میرا حق بنتا ہے نہ ؟ اسی لئے پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں کیونکہ چیئرمین صاحبان نے اپنی سیٹوں پر یکم جنوری کو باقاعدہ طور پر بیٹھنا شروع کرنا ہے اور آپ ابھی سے یہ ٹیکس وصولی کی مہم میں سرگرم ہو گئے ہو اس نے کہا کہ جناب تسی جو کرنا ایں کر لو اسی تے پرچی فیس لین توں بغیر اینوں نہیں جان دینا خیر بیس روپے کی پرچی اس جگے کو دے کر ہم وہاں سے ہل سکے اب میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ اس نے جو پرچی تھمائی نہ تو وہ ٹی ایم اے کی طرف سے چھپی ہوئی تھی اور نہ ہی کسی ٹھیکیدار کی طرف سے چھپوائی گئی تھی کہ جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ کسی منظور شدہ ادارے نے ٹھیکہ دے رکھا ہے بلکہ ایک سادہ سی چٹ جس پر اس غنڈے نما نوجوان نے پنسل سے تاریخ لکھی رکشے کا نمبر لکھا اور بیس روپے کی رقم درج کر کے جگا ٹیکس وصول کر لیا۔
اب اللہ جانے یہ ٹی ایم اے کی بد دیانتی ہے یا سیاسی اجارہ داری مگر ہر حال میں ہے یہ غریب مار ۔جب شہر پہنچے تو رکشے والے نے کہا کہ جناب بیس روپے سواری کے حساب سے کرایہ لوں گا میں نے اس سے کہا کہ بھئی وہ کیوں تو اس نے کہا کہ آپ دیکھ تو رہے ہیں کہ مین لاہور روڈ پر ہمیں ٹریفک پولیس والے نہیں چڑھنے دیتے اوپر سے گھما کر شہر آنا پڑتا ہے اس لئے کرایہ ڈبل ہو گیا ہے میں ایک مرتبہ پھر سوچ کے گہرے سمندر میں ڈوب گیا کہ اگر رکشے والے کو ایک بازار گھوم کر شہر میں داخل ہونا پڑ جائے تو ڈیڑھ چھٹانک پٹرول کی قیمت بھی عوام کے سر منڈھ دی جاتی ہے اس کا عذاب بھی عوام کو جھیلنا پڑتا ہے آخر ان ان دیکھے ٹیکسوں سے عوام کی جان کون چھڑائے گا عوام اب کس سے فریاد کرے کہ ہم میں مزید کندھ خنجر سے ذبح ہونے کی سکت نہیں ہے تو بات ہو رہی تھی رکشہ ڈرائیور کی ڈھٹائی کی پھر میں نے اس سے کہا کہ بیٹا دیکھو پولیس کا غصہ کم از کم عوام پہ مت نکالا کرو اگر آپ لوگ عوام کو چھری پھیرنے کی بجائے ان سے اپنا رویہ ٹھیک رکھیں تو یہی عوام آپ کی مظلومیت کی آواز بن کر آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہو جائے آپ کا کبھی بھی پانچ سو یا ہزار روپے کا روزانہ چالان نہ ہو جب آپ عوام کو کندھ خنجر سے تکبیر پھیرو گے تو اس کا خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑے گا نہ ؟ بہر حال اس نے بھی ڈبل کرایہ وصول کیا اور چلتا بنا۔اب تو یہی سوچ سوچ کے ہلکان ہو رہا ہوں کہ عوامی نمائیندوں کا مقصد عوام کو ریلیف دینا ہونا چاہیئے یا پھر تکلیف دینا مگر کوئی تسلی بخش جواب اب تک تو کم از کم مجھ جیسے کم فہم کو نہیں سجھائی دیا ۔قارئین کرام بجلی کے نرخ بڑھیں تو ارباب اختیار اس سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ خون کس کا نچوڑنا ہے بلآخر قربانی کا بکرا انہیں عوام کی صورت میں مل جاتا ہے۔
Traffic Police
گیس کی قیمتیں زیادہ ہو جائیں یا کر دی جائیں تو بھی تو بھی ہدف عوام ہی کو بنا لیا جاتا ہے اگر تین روپے فی لیٹر پٹرول کی قیمت بڑھ جائے توٹرانسپورٹر پانچ روپے فی سواری کرایہ بڑھا دیتے ہیں یہاں بھی تختہ مشق عوام ہی کو بننا پڑتا ہے ۔آٹا ،دالیں ، گھی ، سبزی سب عوام کی پہنچ سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں گوشت تو خیر پہلے ہی عام لوگ بکر عید پر ہی کھا سکتے ہیں ویسے تو خریدنے کی سکت ان میں ہے نہیں تو جناب کھائیں تو کھائیں کیا اور جائیں تو جائیں کہاں ۔بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ پی ٹی وی پر ڈرامہ ففٹی ففٹی چلا کرتا تھا اس میں ایک مرتبہ دکھایا گیا تھا کہ ایک ریڑھی والا کیلے بیچ رہا ہوتا ہے اور جو پہلی آواز لگاتا ہے وہ کچھ ایسے ہوتی ہے کہ کیلے پانچ روپے درجن کیلے پانچ روپے درجن اچانک ایک پولیس ملازم اس سے آکر کہتا ہے کہ چار درجن اچھے اچھے کیلے دو صاحب کے گھر لے جانے ہیں وہ بے چارہ اسے چار درجن کیلے دے دیتا ہے ، اب کیلے والے نے جو آواز لگائی وہ کچھ یوں تھی کہ کیلے دس روپے درجن کیلے دس روپے درجن ۔ اس کے بعد ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ چار درجن کیلے دو محکمہ صحت کے آفیسرکے گھر جانے ہیں وہ تھوڑی شدو مد کے بعد اسے بھی چار درجن دے دیتا ہے اب کی بار جو اس نے آواز لگائی کہ کیلے بیس روپے درجن کیلے بیس روپے درجن ،اب دو بلدیہ کے ملازم اس کے پاس آگئے انہوں نے بھی دو دو درجن کیلے لئے اور چلتے بنے اب جو ریڑھی والے نے ریڑھی کی طرف دیکھا تو اس پر صرف چار کیلے پڑے تھے تو اس نے روتے ہوئے جو آواز لگائی تو وہ کچھ ایسے تھی کہ ستر روپے کا ایک کیلا ستر روپے کا ایک کیلا کسی بھلے مانس نے پوچھا کہ بھائی اتنے مہنگے کیلے بیچ رہے ہو کچھ خدا کا خوف کھائو تو وہ کہنے لگا کہ بھائی میں نے تو پانچ روپے درجن لگائے تھے مگر حکومتی اداروں کے ٹیکسز کی وجہ سے اب کیلا ستر روپے کا ایک ہے یہ ہے ہمارے ہاں کا کام کیا خیال ہے میں نے غلط تو نہیں کہا نہ ؟ اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو خود ساختہ مہنگائی کی چھری کبھی حکومتی ٹیکسوں کی شکل میں تو کبھی تاجروں کی شکل میں دکھائی دیتی ہے اور عوام وہ خربوزہ ہے جو کبھی چھری کے اوپر رکھ کر کاٹا جا رہا ہے اور کبھی چھری کے نیچے رکھ کر کاٹا جاتا ہے۔
اے رب کائینات کچھ ایسے اسباب پیدا کر دے یا ایسے لیڈران عطا فرما کہ اگر چھری عوام کے حلقوم پر ہو تو اس کی چبھن وہ اپنی گردن پر محسوس کریں جن کا مقصد صرف اور صرف رعایا کو ریلیف دینا ہو نکہ تکلیف دینا جنہیں مالک اتنی انسانی احساسات کو سمجھنے کی تویقات بھی بخشے کے سردی سے ٹھٹھرتے غریب کو اگر دیکھیں تو اس سردی کی کپکپی اپنے وجود پر محسوس کرتے ہوئے اس کے بچائو کے لئے بھی کچھ کریں کہیں گرمی میں جھلستا ہوا مزدور دیکھیں تو اپنے وجود میں اس حدت کی تپش محسوس کرتے ہوئے اس کے تدارک کے لئے کچھ کرنے کو اپنا فرض عین تصور کریں ،کوئی پرچی کی صورت میں جگا ٹیکس لینے والا کبھی یہ کہنے سے پہلے سوبار سوچے کہ چیئرمین بیٹھ گئے ہیں اب پرچی دینی پڑے گی بلکہ اس کو رکشے پہ بیٹھی ہوئی سواری کی صورت میں بلدیہ کے چیئرمین سے لیکر وزیر اعظم تک یکبارگی سب دکھائی دیں وہ دھونس اور غنڈہ گردی سے کبھی کسی غریب سے بیس روپے وصولنے سے پہلے چالیس بار سوچے کہ میں کن کا نام استعمال کرکے مزدوروں سے پیسے بٹور رہا ہوں وہ میرے نہیں اس مزدور کے وارث ہیں تب تو ہوگی اصلی نمائیندگی عوامی اور اگر اس کے بر عکس ہوا تو پھر واقعی عوام وہ خربوزہ ہی ہے جو چاہے چھری کے نیچے ہو یا اوپر کٹنا اس کا مقدر ٹھہرے گا اور عوامی نمائیندوں کے ہوتے ہوئے بھی عوام اور مزدور لاوارث ہی رہیں گے یہ نہ ہو کہ کچھ بھی ہو جائے نشانے پہ عوام ہی رہے۔
یہ بجا کہ شیخوپورہ شہر میں ٹریفک کی بلاکنگ کی وجہ سے رکشے شہر سے باہر سے گزارنے کا حکم لاگو کیا گیا جو ایک احسن قدم تھا مگر اس کے بدلے اگر یہ رکشہ والے عوام سے لینا شروع کر دیں تو یہ زیادتی ہے ان رکشہ والوں کو کیوں ایک کرایہ نامہ جاری نہیں کیا جاتا کیوں کبھی کسی ٹریفک پولیس کے کرتا دھرتا نے عوام سے یہ پوچھنے کی تکلیف گوارا نہیں کی کہ کتنا کرایہ آپ سے وصول کیا گیا یا پھر مان جائیں کہ عوام وہ خربوزہ ہے جو چھری کے اوپر ہو یا نیچے کٹنا تو اسی کو ہی ہے ۔خدارا ان چھوٹے چھوٹے مسائل کی جانب بھی توجہ دے لیں جناب۔
Dr M H Babar
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر Mobile; 03344954919 Mail ;mhbabar4@gmail.com