دو ملائوں میں مرغی حرام

Politics Fight

Politics Fight

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
جدہ میں ہماری فیکٹری کے سامنے ایک بقالہ یعنی بوفیہ تھا جہاں انڈین کیرالہ کے دو نوجوان تازے سینڈوچ چنا پراٹھا چائے پیپسی کا ناشتہ اور لنچ بنا کر دیتے ایک صبح ہم ناشتہ لینے گئے وہاں موجود ایک سعودی شیخ ناشتہ کر رہا تھا علیک سلیک کے بعد میں نے اس سے دریافت کیا یا شیخ آپ نے ناشتہ گھر کیوں نہیں کیا۔ وہ پہلے سے جلا بھنا تھا یا آخی میں نے دو شادیاں کر رکھی ہیں۔ ایک کے ہاں جاتا ہوں تو وہ چڑھ دوڑتی ہے۔ تم دوسری کے ہاں کیوں گئے۔ اس کے ہاں جاتا ہوں تو وہ پوچھتی ہے تم وہاں کیوں گئے۔ اور دروازے بند کر دیتی ہے آج رات مسجد میں گزار کر آیا ہوں۔

میری مثال اس بیل جیسی ہے جسے دو گائے کے درمیان باندھ دیا جائے تو اس کے حصے کا چارہ بھی وہ پہلے کھا کر پھر اپنا شروع کرتی ہیں۔ اور وہ بیچارہ بھوکا رات گزارتا ہے۔ میں کھل کھلا کر ہنس پڑا وہ متعجب ہوا اور پوچھنے لگا کیا آپ بھی دو بیویاں رکھتے ہیں۔ میں نے کہا شیخ نہیں ایک ہی ہے جسکی سزا سات سمندر پار رہ کر زندگی گزار رہا ہوں۔ اب ہنسنے کی باری اس کی تھی میں بولا ہمارے ہاں دوسری شادی کرنا قتل کرنا اور خود قتل ہونے کے برابر ہے۔ بیوی کے وارثوں کے ہاتھوں اگر بچ جائیں تو اپنی اولاد کے ہاتھوں روز روز مرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ایک کے ساتھ ہی آمنا وصدقنا ساری زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ وہ مجھے مظلوم سمجھ کر دلاسے دینے لگا اور میرے ناشتے کے پیسے بھی دے کر یہ گیا و گیا ۔ قارئین ہمارا معاشرہ ان شرعی رشتوں کو اگر قبول کرتا ہوتا تو آج ہمارے ملک کی لاکھوں لڑکیاں بڑھاپے کی دہلیز پر ماں باپ کے ہاں نہ سسک سسک کر گزارتیں۔

آج ہزاروں بیوائیں بے سہارا بے یارو مددگار نہ ہوتیں ہمارے ہاں بدکرداری بدچلنی کا یہ طوفان نہ ہوتا۔ نوجوان بچیاں خود کشیاں نہ کرتیں عورتیں اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے دردر کی ٹھوکریں نہ کھاتیں۔ جسم فروشی کی حد تک نہ جاتیں عورت کو نان نفقہ کے ساتھ جان مال کا تحفظ اور رہنے کے لئے چھت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں بے سہارا کو سہارا دینا دو ملائوں میں مرغی حرام ہے اگر کوئی ایسی غلطی کر بھی لے تو عورت کی عورت ہی دشمن ایسے لوگوں کا حشر مرغی حرام جیسا ہی ممکن ہو جاتا ہے ویسے بھی ہمارے معاشرے کے ہر شعبے میں حسد بغض جلن کا اسقدر چلن ہے کہ جس سے کوئی بھی محفوظ نہیں ڈاکٹر ،ڈاکٹروں سے ٹیچر، ٹیچروں سے تاجر، تاجروں سے اور تو اور ہمارے رہبر و رہنما علماء اور فضلاء بھی اس سے محفوظ نہیں۔ سیاستدان بھی اور اہل اقتدار بھی نہیں سیاستدانوں حکمرانوں کی لڑائی میں غریب عوام کی قربانی ساس بہو کی لڑائی میں بیٹوں خاوندوں کی قربانی ۔ بھائیوں کی لڑائی میں بوڑھے ماں باپ کی قربانی استادوں معلموں کی لڑائی میں طلباء کے مستقبل کی قربانی ۔ جس معاشرے میں گھر گھر قریہ قریہ حسد و بغض کا چلن ہو صبر تحمل اور برداشت کا مادہ کم ہو وہاں بڑوں کی لڑائیوں میں چھوٹوں کی قربانی اور غریب عوام کی قربانیاں لگنا کچھ عجیب نہیں لگتا۔ آج ہماری سیاست اور سیاستدان بھی اس کا عملی ثبوت بنے ہوئے ہیں۔ شریفوں ، زرداریوں اور کھلاڑیوں کی لڑائی میں اہل پاکستان اور پاکستان کی مرغی حرام ہو رہی ہے۔

کراچی حیدرآباد کی لڑائی میں فاروق ستار کی مرغی اور جمعیت کے ف اور س کی لڑائی میں حال ہی مولنا سمیع الحق کی مرغی حرام ہو گئی۔ اگر یہی سلسلہ یہاں جاری رہا تو ہمارے معاشرے اور ملک کا اللہ ہی حافظ ۔ اللہ کیا ہی اچھا ہو ہمارے معاشرے کی خواتین اپنے رویوں پر کنٹرول کریں صبر شکر کریں۔ حسد و بغض خود غرضی سے اجتناب کریں۔ اپنے اپنے گھروں کو جنت بنائیں۔ صاحب ثروت مرد اپنے آس پاس کی بے سہارا بیوہ خواتین کو اپنائیں۔ انکے بچوں کے سرپرست بنیں گھروں میں بیٹھی بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے والی لڑکیوں کو جہیز کی لعنت سے چھٹکارہ دلا کر اپنے نکاح میں لائیں۔ اس لئے کہ یہ ہمارے پیارے نبی ۖ کی سنت مبارکہ ہے انہوں نے سوائے ایک کہ بیوائوں بے سہارا خواتین کو ہی اپنی زندگی کا ساتھی بنایا پھر دیکھیں کیسے ہمارا سارا معاشرہ امن و سکون کا معاشرہ پاکیزہ کردار کا معاشرہ اتفاق و اتحاد کا معاشرہ بن پائے گا۔ انشاء اللہ

Haji Zahid Hussain

Haji Zahid Hussain

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
ممبر آل پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ
hajizahid.palandri@gmail.com