22 دسمبر اور عمران بطور لیڈر شپ

Youth Loans

Youth Loans

کسی بڑے طوفان کے پھوٹنے کے آثار اور علامات کو بہت کم لوگ دیکھتے ہیں، سماجی اور سیاسی خاموشی میں گہرا شور بہت کم کانوں کو سنائی دیتا ہے مگر جب برداشت ٹوٹتی ہے تو حشر برپا ہوتا ہے یادگار ِ پاکستان کے سائے تلے لاکھوں انسانوں کااجتماع بے قراری کا اظہار تھا اب یہ سونامی تھمنے والا نہیں لیپ ٹاپ، پیلی ٹیکسیاں، سولر لیمپ سکیم ،مخصوص طبقہ کیلئے بنائے گئے دانش سکولز کے ناٹک اور اب یوتھ لون اس طوفان کے آگے بند نہیں باندھ سکتے جنوبی پنجاب کیخالد محمود چوہدری نے بھی بغاوت کردی تبدیلی کی خواہش لئے وہ بھی نوجوانوں کے شانہ بشانہ آکھڑا ہوا اُس کا فیصلہ ایک بڑے انسان کا فیصلہ ہے۔

قصر زردار کے مکیں اور رائے ونڈ کے شریفوں نے اپنے طبقہ کے مفادات کے نظام کو بچانے اور مسلط رکھنے کیلئے معاشرے کو تاراج اور اقبال کی دھرتی کے باسیوں پر اپنے دور ِ اقتدارمیں بے رحمانہ معاشی اور سماجی مظالم ڈھائے ،ان کی ڈاکہ زنی اور لوٹ مار نے سرمایہ دارانہ نظام کی غلامی میں سسکتے 19کروڑ بے یارو مدد گار انسانوں کیلئے کچھ نہیں چھوڑا ،باری کا کھیل جاری رکھنے والوں نے مہنگائی کو جان لیوا ،غربت کو اذیت ناک ،بنیادی ضروریات کو نایاب اور استطاعت سے باہر کر دیا ،19کروڑ عوام کی زندگی کو جہنم بنا دیا عام سبزی آلو کی درآمد میں ایک ارب 97کروڑ کمائے گئے ،15اداروں کی نجکاری کرکے 110ارب روپے کمیشن وصول کیا گیا اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مہنگائی کے حوالے سے ایشیا میں پہلے نمبر پر آچکا ہیسرمایہ دار حکمرانوں کی ہوس ،اُن کی عادت ،اُن کی خصلت اور کردار بن چکی ہے گزشتہ پانچ سالوں میں پی پی کی فرینڈلی اپوزیشن کی سر پرستی میں کرپشن معاشرے کی رگوں اور شریانوں میں زہر بن کر سرائیت کر گئی ،کرپشن کے بغیر کسی صوبائی اور وفاقی ادارہ کے چلنے اور اُس کا وجود اور کار کردگی ممکن نہ رہی۔

وطن عزیز کے دو بڑے شہروں میں سینکڑوں محنت کش جل کر خاکستر ہوگئے اور ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی مجرمانہ حکمرانی کو جواز بخشنے کیلئے پنجاب کے حکمرانوں کو پورا صوبہ صرف لاہور میں نظر آیا مگر لاہور تو کبھی بھی ایک نہیں رہا گلبرگ ،ڈیفنس ،اور پوش آشیانہ سکیموں کے بیچوں بیچ لاکھوں مفلوک الحال ،بے آسرا ،سماجی و معاشی بے بسی کے شکار محنت کشوں کی زندگیاں اتنی ہی سستی ہیں جتنی چوٹی ،روجھان ،کوٹ سلطان،راجن پور ،خان پور ،صادق آباد کی زندگیاں ، باری کا کھیل جاری رکھنے والی عوام پر مسلط دونوں پارٹیاں سیاسی نظریات تک سے عاری ہو گئیں نظریاتی ورکروں کے انقلابی نظریات کو لکشمی دیوی کے چرنوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا دونوں پارٹیوں کے جانثار ورکرز شدید مایوسی ،لاچارگی کے عالم میں اپنی قربانیاں اور جدوجہد اِن کی بے رحم جمہوری منڈی میں نیلامی کیلئے لیکر پھرتے رہے ،سسکتے ،آہ و بکا کرتے رہے مگر سرمائے کے اقتدار میں اُن کی دال نہ گل سکی ،اِن کے جرائم پیشہ وزیر ،مجرم حواری صاحب اقتدار رہے جمہوریت کے نام پر سرمائے کی آمریت میں جبر پوری وحشت کیساتھ مظلوم عوام کامعاشی ،سماجی اور اقتصادی قتلِ عام کرتا رہا ،ان جمہوری حکمرانوں نے آٹھ سالہ آمریت کے خاتمہ کے بعد سرمائے کی جمہوریت میں اپنی طاقت ،اقتدار اور بالا دستی کو قائم رکھا ان کے اعمال وہی رہے۔

National Assembly

National Assembly

ان کا استحصال وہی رہا ،باری کا کھیل جاری رکھنے کیلئے اسمبلیاں نورا کشتی کے اکھاڑے بنے رہے فرینڈلی اپوزیشن کا کھیل جو کل نواز لیگ کھیل رہی تھی آج اُسے پیپلز پارٹی جاری وساری رکھے ہوئے ہے، آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والے حتیٰ کہ اپنے ہاتھوں عوام پر من پسند مسلط کردہ آمر کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے شریف زادے عوام کی غربت ،ذلت ،اذیت ،محرومی ،بے بسی ،مجبوری ،عذابو ں سے بھری زندگی کے زخموں پر تضحیک آمیز ہنسی ہنستے رہے ،میڈیا کے کوٹھوں کا کاروبار عروج پر رہا حتیٰ کہ شریفوں کے راتب پر پلنے والے تارڑ کے منشیوں نے عوامی شعور کو رائے ونڈ کے محلات کی جانب موڑنیکیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور لگارہے ہیں ،اپنے لفظوں سے مکروہ چہروں پر عوامی مسیحائی کا جعلی نقاب لگاکر پیش کررہے ہیں مگر قلم کی قسم تو ربِ ذوالجلال نے کھائی بخدا یہ کسی لٹیرے کیلئے ایک لمپن (غنڈہ گرد )کا کردار نہیں ہو سکتی کسی کا گماشتہ اسے خواہ کسی بھی شکل میں استعمال کرے یہ کھیل اب اختتام چاہتا ہے۔

بیروزگاری کے ہاتھوں مفلوج ہوتی زندگی سے تنگ نوجوانوں کے کھولتے ہوئے غیض و غضب نے شریفوں کی قیادت میں باری کے کھیل کو جاری رکھنے کیلئے دکھاوے کی اپوزیشن کے ظاہری جمود کو اپنی قوت سے پاش پاش کرڈالا ہے عمران کی قیادت میں شریفوں اور زرداریوں کی معاشی پالیسیوں کے خلاف انتقام کی آگ سے بھرے غصے اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اکثریت متحرک ہوئی ہے ،سسکتی ہوئی انسانیت ،ہزاروں بچوں کی بھوک کی وجہ سے روزانہ اموات ،ادویات کی مہنگائی سے بزرگوں کی قبل از وقت اموات ،علاج کے فقدان سے لاکھوں مائوں کا دوران زچگی دم توڑ دینا ،بیروزگاری کی ذلت میں سلگتی جوانیاں ،غربت ننگ اور افلاس کی اندھی کھائی میں گری رعایا ،بجلی ،پانی اور دوسری سہولیات کی قلت سے مجروح زندگی پر ہونے والا بے ہودہ سیاسی مجرا اب عوام دیکھنے کے قابل نہیں رہے ،ظلم جبر ،لوٹ مار اور استحصال کرنے والوں کو اب اس زعم سے نکلنا ہوگا کہ ایسا سب کچھ چلتا رہے گا ،زمیں یوں ہی جامد رہے گی ،سورج ،چاند ،ستاروں کی گردش اُن کے اشاروں کی محتاج رہے گی ،نہیں اب ایسا نہیں ہوگا سماج میں رونما ہونے والے مظاہر کے اپنے اصول ہوتے ہیں جن کا اظہار کبھی کبھی غیر معمولی ہوا کرتا ہے،ماضی کے اندھیروں کی نحیف آوازوں کا شور بعض اوقات زیادہ اس لیئے آتا ہے کیونکہ اُس وقت معاشرے میں سیاسی جمود کا ایک ہولناک سناٹا ہوتا ہے لیکن یہ زیادہ عرصہ پر محیط نہیں رہ سکتا برداشت جب ٹوٹتی ہے تو حشر برپا ہوتا ہے ،سوچیں بدلتی ہیں ،شناخت بدلتی ہے ،حوصلے اور جراتیں جاگتی ہیں

اِس دھرتی پر جہاں 66برسوں میں ہر آس ٹوٹی ،ہر اُمید پامال ہوئی ،لاتعداد مرتبہ میدانِ کارزار لگے عوام اپنی حقیقی منزل سے محروم رہے 23مارچ کو ایک نئے پاکستان کی بنیادیں استوارہوئیں جہاں محرومیاں ،مجبوریاں ،محتاجیاں ،ذلتیں ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے انسانیت سرخرو ہوئی اور آج عمران کی قیادت میں ان ذلتوں کے باوجود عوام سچ پر کھڑے ہیں ،منظم ہیں کہ کسی بڑے طوفان کے پھوٹنے کے آثار اور علامات کو بہت کم لوگ محسوس کرتے ہیں ،سیاسی اور سماجی خاموشی میں گہرا شور بہت کم کانوں کو سنائی دیتا ہے مگر جب برداشت ٹوٹتی ہے تو حشر بر پا ہوتا ہے۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک