تحریر: میڈم رخسار نعیم اختر اعوان ایڈوکیٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا کہ سب سے بڑی کامیابی جو حاصل ہو سکتی ہے وہ آخرت کی کامیابی ہے۔ اور آخرت کی کامیابی کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : اعمال میں سب سے زیادہ وزنی حسن اخلاق ہوں گے۔ گھٹتے ہوئے اخلاقی اقدار ، لادینی اور الحاد پر مبنی عقائد ، تشدد میں اضافہ ۔۔۔ ان تمام منفی رویوں سے زیادہ افسوس ناک اثر جو آج کی نوجوان نسل پر پڑ رہا ہے وہ شرم و حیا کے تعلق سے ہے ، بے حیائی اور بے راہ روی کے طریقوں میں فروغ سے متعلق ہے۔
ان کے ذمہ دار کون ہیں ؟ خود نوجوان نسل یا والدین یا سرپرست یا اساتذہ یا بگڑتا معاشرہ ؟ اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے کہ والدین جن برائیوں کو معاشرے میں دیکھتے ہیں ، دوسرے بچوں کو جن برائیوں کا ارتکاب کرتے ہوئے معیوب سمجھتے ہیں ، اگر انہی برائیوں میں خود اپنے بچوں کو ملوث دیکھیں تو اس کا کچھ زیادہ سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا جاتا یا پھر ان کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کی جاتی ہے۔
Parents
والدین اپنے بچوں کی جانب مثبت طور پر راغب نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات ان کی غلط عادات کو بے جا لاڈ و پیار کے تحت رعایت تک دے دیتے ہیں۔ مثلا اگر بچے کوئی غلط قسم کا میگزین یا ناول پڑھتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ : وہ ذرا یونہی وقت گزاری کے لئے پڑھ رہے ہیں! غیر اخلاقی و غیر مہذب ٹی وی سیرل یا فلمیں دیکھتے نظر آئیں تو یوں پردہ پوشی کی جاتی ہے کہ : بھئی ، ہمارے بچے تو بس “صاف ستھری فلمیں” ہی دیکھتے ہیں۔ یا پھر یوں تاویل کی جاتی ہے کہ : محض ذرا دیر کے لئے ذرا سی تفریح کے لئے ہے۔ اگر بچے حجاب و حیا کی حدود کی پابندی نہیں کرتے یا پھر نامحرموں کے ساتھ میل جول ، ہنسی مذاق ، دوستی کرتے پھرتے ہیں تو صفائی دی جاتی ہے کہ : وہ تو صرف دوستی ہے۔ ہمارے بچوں کا دل تو صاف ہے۔ پردہ تو دراصل دل کا ہوتا ہے اور وہی اہم ہے۔
Information
ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ یہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے جو کچھ بھی پڑھا ، دیکھا یا سنا ، وہ صرف اسی محدود وقت کے لئے تھا اور بس ختم۔ ورنہ تو ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ حالانکہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ : ہم جو کچھ پڑھتے ، دیکھتے یا سنتے ہیں وہ کہیں کھو نہیں جاتا بلکہ ہمارے ذہن کے لاشعور میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور پھر بعد میں جو کچھ معلومات ہم اپنے ذہن سے اخذ کرتے ہیں وہ “محفوظ معلومات” کسی نہ کسی طرح سے اظہار کی راہیں تلاش کرتی ہیں۔ اور یوں ہماری گفتگو ، ہمارے جذبات ، احساسات ، اعمال و معاملات ، غرض ہماری مکمل شخصیت میں ہماری ذہنیت کا ظہور ہوتا ہے۔ بچے جو بالکل صاف کاغذ کی طرح ہوتے ہیں جو دیکھتے ہیں وہ اپنے احساسات میں محفوظ کرلیتے ہیں اور انہیں احساسات کی بدولت معاشرہ میں آنے والی سرگرمی خواہ وہ منفی ہویا مثبت اس کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان بچوں کو اپنا آپ نمایاں کرنے کے لیے کسی بھی نتائج سے بے پرواہ ہوکر اپناکام انجام دینا ہوتاہے خواہ اس کا انجا م برا ہواسی لیے پھر والدین کے بے جالاڈ پیار اور تفریح کے نام پر بچے ایسے مسائل میں پھنس جاتے ہیں جس سے والدین کو پھر پچھتانا پڑتا ہے اور یوں وہ محاورہ صادق آتا ہے کہ جو بویا جائے وہی کاٹا بھی جائے گا