تحریر : ایمان ملک گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہےجہاں پر یہ بات حوصلہ افزا ہے وہیں پر یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ مکمل طور پر کبھی بھی پاکستان سےختم نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان عوامل کا تدارک نہ کیاجائے جو تشدد پسند انتہا پسندی کیلئے کارفرما سمجھے جاتے ہیں۔ بلا شبہ کسی بھی معاشرے میں نوجوان نسل کو “تبدیلی کا انجن” سمجھا جاتا ہے۔اور اگر پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تشدد پسند انتہا پسندی کے خاتمے اورامن کے قیام کیلئے پاکستان کی حکمت عملی میں نوجوان نسل کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ مگر پھر بھی ہر سال انتہا پسند قوتیں ملک میں سےایسے لا تعداد ہونہار بچوں کو اپنےجال میں پھنسانے میں کامیاب ہو جاتیں ہیں جو یقینی طور پر مستقبل میں ملک و قوم کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اور یہ وحشی صفت انتہا پسند تنظیمیں ان بچوں کو موت اور تباہی کی وادی میں تو دھکیلتی ہیں ہی پر انہیں انکے ہی اپنے ہم وطنوں پر بطورِخود کش بمبار استعمال کرکے بے شمار گھرانوں کو اجاڑ دینے کا با عث بھی بنتیں ہیں۔۔
یاد رہے کہ نورین لغاری کے کیس سے قبل ما ضی میں بھی پاکستان میں تعلیم یافتہ نوجوان نسل دہشت گرد تنظیموں کے چنگل میں پھنستی رہی ہے۔ جن میں سعاد عزیز، ازفر عشرت، حافظ ناصر قابل زکر ہیں جن کے نام ساںحہ صفورا کے بعدتحقیقات کے نتیجے میں سامنے آئے۔ واضح رہے کہ سعاد عزیز انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن(آئی بی اے) سے بی بی اے(گریجویٹ) تھا۔اور اس سے قبل سعاد بیکن ہاؤس سکول سسٹم سے فارغ التحصیل بھی تھا، جس نے دوران تحقیقات سماجی کارکن سبین محمود کے قتل کی منصوبہ سازی کا اعتراف بھی کیا ۔ جبکہ ازفر عشرت ایک پروفیشنل انجنیئر تھا۔اور جو سر سید یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا گریجویٹ تھا اور جس نے سنہ 2011 میں دہشت گردی کی دنیا میں قدم رکھا۔ازفر کو بم بنانے اور ان بموں میں الیکٹرانک سرکٹس کو بطور ٹائمر استعمال کرنے میں خاصی مہارت حاصل تھی۔ جب کہ ازفر اور سعاد کے برعکس حافظ ناصر نے یونیورسٹی آف کراچی سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی مگر پھر بھی وہ خود کو دہشت گردانہ سوچ کی حامل تنظیموں سے محفوظ نہ رکھ سکا۔اور سنہ 2013 میں وہ ان دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوا۔ حافظ ناصر ایک تربیت یافتہ دہشت گرد تھا جسے برین واشنگ اور نوجوان نسل کو جہادی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ اور بعد ازاں، حافظ ناصراور سعاد عزیز کو ملٹری کورٹ کی جانب سے سانحہ صفورا سمیت متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی۔
اب سب سے اہم سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں اتنی آسانی سے کیسے اپنے شرپسند مقاصد میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔اور پھر یہ تنظیمیں آخر ایسا کیا گھول کر پلاتی ہیں کہ ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے بچے جو تعلیم یافتہ گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ ان درندہ صفت شیطانوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں۔ اِس سوال کا جواب ایک سطر میں تلاش کرنا، ناممکن سی بات ہے کیونکہ متعدد عوامل ایسے ہیں جو نوجوانوں کو انتہاپسندی کی آگ میں دھکیلنے کا باعث بنتے ہیں۔ مگر واضح رہے کہ کسی بھی تنظیم کا انتہا پسندانہ دائرہ اثرکبھی بھی محض واحد عُنصر کے طور پر لوگوں کو متاثر نہیں کرتا بلکہ یہ ایسے عوامل کا مجموعہ ہوتا ہے جو شر پسند تنظیموں اور انکے ظالمانہ ایجنڈے کو معاشرے میں ترویج بخشتے ہیں۔
بنیادی طور پر وہ نفسیاتی و سماجی مسائل جو نوجوان نسل میں ہیجان پیدا کرنے کا باعث بنتےہیں اور ان کے ماحول، معاشرے بشمول پولیٹیکل اکانومی کے حوالے سے ان میں عدم اطمینان کا بیج بوتے ہیں۔ ایسے عوامل “پُش فیکٹر”کہلاتے ہیں جو نوجوانوں کو انتہا پسندی کی جانب راغب کرتے ہیں اور یہ عدم اطمینان کی کیفیت ان کے دل و دماغ پر گہرے نقوش بھی کندہ کرتی ہے۔اور دوسرا پُش اور پُل فیکٹر ایسے عوامل اور شرائط پر محیط ہے جو نوجوانوں کو قائل کرتا ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیم کا باقاعدہ حصہ بنیں کیونکہ وہ تنظیم انہیں ان کے اس عدم اطمینان اور ہیجانی کیفیت کے حوالے سے متبادل بیانیہ مہیا کرتی ہے جسے وہ اپنی فطرت کے قریب تر سمجھتے ہیں اور ان شر پسند تنظیموں کے چُنگل میں دانستہ اور غیر دانستہ طور پر پھنستے چلے جاتے ہیں۔ چونکہ یہ دہشت گرد تنظیمیں برین واشنگ اور پروپیگنڈہ وار جیسی جنگی تکنیکوں میں خاصی مہارت رکھتی ہیں۔ لہٰذا ان کے ان جنگی حربوں کے سامنے ہماری جامعات کے طلبہ، طالبات اور ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، دونوں ہی غیر موثر ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے تدریس گاہوں میں “تنقیدی سوچ کی افزائش” کا شدید فقدان ہے جو کہ دورِ حاضر کے اس نازک وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، جس سے پاکستان اِس وقت گزر رہا ہے۔ یاد رہے کہ جہاں پاکستان کو ملٹری آپریشن “ضربِ عضب” سے حاصل کردہ اپنی کامیابیوں کو برقرار رکھنا ہے وہیں اسے معاشرے سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو بھی چُن چُن کر نکالنا ہے۔ علاوہ ازیں اُسے اپنے متبادل بیانیے کو بھی معاشرے میں فروغ دینا ہے تاکہ ان درندہ صفت تنظیموں میں مزید بھرتیاں مکمل طور پر منقطع ہو جائیں۔
ایسی صورتحال میں اگر پاکستان کی نامور جامعات سے نوجوانوں کی انتہا پسندی کی طرف مائل ہونے کی خبریں آہیں گی تو پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے قومی بیانیے پر ضرور سوال اُٹھیں گے جس کی ذمہ داری بلا شبہ پاکستان کی حکومتی ایوانوں کے ناتواں کندھوں پرعا ئد ہوتی ہے۔ مزید براں، یہ بھی ایک قابلِ غور امر ہے کہ پاکستان گزشتہ ڈیرھ دہائی سے حالت جنگ میں ہے جہاں آئے دن بم دھماکوں اور خود کُش حملوں کی خبریں ہمارے ٹی وی چینلز کی زینت بنتیں ہیں، چنانچہ ہمارے بچے (نوجوان نسل) بھی ان خبروں سے مستفید ہوتے ہیں مگر (ماسوائے اِیکا دُکا چینلز کے) سب چینلز صرف معلومات تو دے رہے ہیں مگر ایجوکیشن یعنی تعلیم کا عُنصر کہیں گلیمر کی چکاچوند میں کھو سا گیا ہے۔ جسے از سرِ نو دریافت کرنےکی اشد ضرورت ہے۔
اِس کے علاوہ پاکستان کو اپنے تعلیمی نصاب میں بھی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو “قابل عبرت اور ناپسندیدہ شخصیات” بنا کر نوجوان نسل کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ شرپسند تنظیموں میں شمولیت تو درکنار کبھی ہمارے نوجوانوں کو اُن کی ہمدردی،معاونت اور تقلیدتک کا خیال بھی نہ آئے ۔ بلا شبہ دہشت گردی ایک عالمی نوعیت کا حامل مسئلہ ہے جس میں ہر کسی کا کردار اہم سمجھا جاتا ہے۔ حتٰکہ معاشرے، درسگاہوں، تدریسگاہوں اور والدین کا بھی۔ اِس ناسور کا اپنے معاشرے سے قلع قمع کرنے کیلئے ایک ایک فرد کو اپنے اپنے حصے کا چراغ روشن کرنا پڑے گا تب جا کر کہیں اُجالے اور روشنیاں ہماری آنے والی نسلوں کی زندگیوں کا مقدر بنیں گی۔
لہٰذا اِس ضمن میں سب سے اہم ذمہ داری والدین کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے (سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر) سوشل اکاؤنٹس پر نظر رکھیں اُن کے موبائل فونز مانیٹر کریں۔ اپنے بچوں کو اتنا اعتماد مہیا کریں کہ وہ ہر ایک بات بلا کسی جھجک کےاپنے والدین سے شیئر کر سکیں۔ یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ کہیں نہ کہیں والدین اور بچوں کے مابین بڑھتا ہوا خلاء بھی نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے رجحان کا باعث ہے۔
Terrorist
المختصر، ستر کی دہائی میں براعظم یورپ میں دہشت گردوں کی ریکروٹنگ سب سے زیادہ اُن کی یونیورسٹیوں (جامعات) سے ہوتی تھی ، لہٰذا یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ برطانیہ نے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے اپنی جامعات میں طلبہ، طالبات اور اساتذہ کی “ای میلز مانیٹرنگ” کا آغاز کیا ہے پاکستان بھی اُسی طرز پر کوئی موثر یعنی “قابلِ عمل حکمت عملی” تیار کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، آئی ایس پی آر یعنی پاک فوج کا شعبہ تعلقات عامہ بھی اِس ضمن میں پاکستان کے چیدہ چیدہ تعلیمی اداروں میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے خصوصی لیکچر سیریز کا آغاز کر کے براہ راست اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس سے نوجوان نسل کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہو گا نیز ان میں اپنے وطن کے حوالے سےا حساسِ ذمہ داری بڑھے گی۔