دنیا کی تمام چیزوں میں شر و خیر کا پہلو چھپا ہوتا ہے۔ اب یہ ہماری استعداد پر منحصر ہے کہ ہم کون سا پہلو اختیار کرتے ہیں۔ اگر کسی چیز کا استعمال صحیح اور جائز کاموں کے لئے کیا جائے جس سے دنیائے انسانیت فیض یاب ہوتی ہوتو ظاہر سی بات ہے کہ اس کے فیوض و برکات اور ثمرات بہت فائدے مند ہوں گے۔ یہی حال سوشل میڈیا کے استعمال کا بھی ہے۔ حالانکہ سوشل میڈیا کے موضوعات پر پہلے بھی میں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسی ایجاد ہے جس کی افادیت و نقصانات دونوں ہیں، یہ دو دھاری تلوار ہے۔ حقیقتاً اگر دیکھا جائے تو اس کے نقصانات اس کی افادیت سے زیادہ ہیں، چاہے وہ مذہبی ہوں، جسمانی ہوں یا معاشرتی و سماجی۔ اب یہ استفادہ کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کیسے مستفیض ہوتے ہیں؟ جب کہ حالات و واقعات شاہد ہیں کہ سوشل میڈیا کا جائز استعمال کرنے والے بھی ناجائز چیزوں سے اپنی حفاظت نہیں کرپاتے۔آج سوسائٹی کا کوئی بھی فرد والدین ہو، اولاد ہو، گھر کے بڑے بزرگ ہوں سوشل میڈیا کے اثرات سے بالاتر نہیں. خواتین صنف نازک ہیں اور مردوں کی بہ نسبت سادہ لوح، جذباتی، کسی پر بھی جلد بھروسہ کرنے والی، کہا جاتا ہے کہ ناقص العقل اور کم سمجھ بھی ہوتیں ہیں، اس لیے ان کے متاثر ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ اور اسی کے نتیجے میں خاموشی سے ان کا استحصال شدت سے ہوتا ہے۔
جدید نیٹ ورک ٹیکلنالوجی اور سوشل میڈیا جیسے آزاد پلیٹ فارمز بڑی آسانی سے مہیہ ہوجاتے ہیں۔ فی زمانہ سوشل میڈیا ایک ایسی لت بن چکا ہے، جس میں بچوں سے لے کر بوڑھوں اور عورتوں تک سب گرفتار ہیں۔ ماہرین کے نزدیک لت کی تعریف یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا عمل، جس کو کرنے سے آپ کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آپ یہ بات جاننے کے باوجود اس عادت کو ترک کرنے سے قاصر ہوں۔ سماجی رابطے کے برقی صفحات اور ماڈرن devices کے اسکرین ٹائم کے ذریعے آن لائن access سے مسلسل رابطہ جوڑے رکھنے اور ان تمام ذرائع کے بغیر رہ نہ پانے کو لت کا نام دیا جاتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سماجی رابطے کے تمام ذرائع کا استعمال کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد کے لیے ان تمام ذرائع کا استعمال ایک نشہ بن چکا ہے، چاہے وہ مرد ہو یا زن۔مصر کے دارالافتاء نے 2014 ء میں ایک فتویٰ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ ”نامحرم مرد و خواتین کے درمیان آن لائن چیٹنگ خلافِ اسلام ہے۔
آن لائن چیٹ رومز برائی کا منبع اور شیطان کے لیے دروازہ کھولتے ہیں، بے راہ روی کا سبب اور فتنہ ہیں اور اس سے غیر اخلاقی کردار کی راہ ہموار ہوتی ہے”۔تاہم اس فتوے میں وضاحت کی گئی ہے کہ ناگزیر صورت میں خاتون کی کسی غیرمحرم مرد سے اس طرح کی گفتگوؤں کی اجازت ہے۔بعض علماء اور دانشورانِ امت کے نزدیک سوشل میڈیا کا استعمال فی نفسہ ایک مباح امر ہے، بشرط یہ کہ اس میں مشغولیت کی وجہ سے کسی واجب کا ترک یا حرام و ناجائز کا ارتکاب لازم نہ آئے۔ البتہ غلط اور ناجائز امور کے لیے استعمال ناجائز اور گناہ ہے۔
نیز چونکہ اس میں ناجائز امور کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے بلاضرورت اس کے استعمال سے بچنا ہی بہتر ہے اور خواتین کے لیے بھی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے سوشل میڈیا کا استعمال ہو۔ چونکہ خواتین زیادہ تر سادہ مزاج کی ہوتی ہیں اور شاطر لوگوں کے بہکاوے میں جلدی آجاتی ہیں اس لیے خواتین بلا ضرورت محض وقت گزاری اور تفریح کی خاطر سوشل میڈیا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔البتہ بوقت ضرورت تعلیمی مقاصد یا رشتہ داروں سے رابطہ کے لیے استعمال کرسکتی ہیں۔ لیکن ناجائز اور فحش کاموں سے بچنا بہر حال لازم ہے۔
سوشل میڈیا جہاں اپنے آپ میں مفید ہے وہیں حد درجہ مضر و خطرناک بھی ہے۔زندگی میں جو کام سوشل میڈیا سے باہر کرنا مرد و زن پر حرام و ناجائز ہے وہ سوشل میڈیا پر کرنا بھی حرام و ناجائز ہی ہیں اور جو کام جائز ہیں وہ سوشل میڈیا پر بھی جائز ہو جاتا ہے۔ چونکہ سوشل میڈیا کی اس لہر سے بچنا آج کل کے دور میں انتہائی مشکل ہے۔ تو ایسے حالات اس فتنہ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں اور اگر بہت زیادہ ضرورت ہوتو سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے گریز، اس کے مثبت استعمال کی طرف رہنمائی اور اصلاحی امور کی انجام دہی کے لیے اس کا استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ موجودہ دور میں اصلاحی کوششوں کی شدید ضرورت ہے۔عورتوں کے لیے کسی قسم کا کوئی گروپ بنانا کئی مفاسد کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے، لہذا اس سے اجتناب کیا جائے۔ سوشل میڈیا نے جہاں مردوں کو اپنا گرویدہ بنایا ہے وہیں خواتین بھی اس سے پوری طرح مستفید ہو رہی ہیں، ایک وقت تھا جب صرف مرد حضرات انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال کرتے نظر آتے تھے، مگر آج یہ صورتحال ہے کہ خواتین بھی اس دوڑ میں پوری طرح شامل ہو چکی ہیں۔
موجودہ دور میں یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ خواتین اپنا 68/فیصد وقت سوشل میڈیا پر زیادہ گزار رہی ہیں۔ جبکہ مردوں میں یہ تناسب 32/فیصد ہے۔ الغرض سوشل میڈیا سراسر دجالی نظام کی پھیلائی ہوئی وبا ء ہے اور آج کے دور میں ہر کوئی اس کی لپیٹ میں آرہا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ آج 80 فیصد فیصد گھروں کے ٹوٹنے میں سب سے اہم کردار اس سوشل میڈیا کا ہے جس نے میاں بیوی کے درمیان دوریاں پیدا کردی ہیں اور جس کی وجہ سے خاندان کے خاندان تباہ ہو رہے ہیں اور خانگی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے ۔حالات و تجربات شاہد ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے امت کی بیٹیوں اور لڑکیوں میں بے شرمی، بے باکی، بے حجابی، بے حیائی، فحاشی و عریانیت وجود میں آرہی ہے اور غیرت و حمیت شرم و حیا کا جنازہ نکلتا جارہا ہے ۔مسلم لڑکیوں کا سوشل میڈیا کے ذریعے غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ عشق و محبت میں مبتلا ہوکر اپنے حْسن و عشق کی نمائش کرنا، ان کے ساتھ راہ فرار اختیار کرکے اپنی زندگی کو تباہ و برباد کرکے فتنہ ارتداد کا شکار ہونا، ان ساری فتنہ انگیزیوں کے پیچھے جو آلہ کار ہے وہ بھی سوشل میڈیا ہی ہے۔
ایک حالیہ تحقیق میں دنیا کے 20 سے زیادہ ممالک میں لڑکیوں اور خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے آن لائن تشدد کے چونکانے والے اکاؤنٹس کا انکشاف ہوا ہے جس میں واضح رپورٹنگ ، فحش نگاری ، سائبر ہراساں کرنا اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی دیگر اقسام شامل ہیں۔ خواتین کو اکثر و بیشتر سوشل میڈیا پر کبھی نہ کبھی گالم گلوچ، نازیبا الفاظ اور ٹرولنگ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔فیس بک جیسے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر خود پسندی اور ریاکاری کا شکار انسان پانچ ہزار دوستوں کی لسٹ میں بھی تنہائی کا شکار ہی رہتا ہے اور اس تنہائی کا احساس مردوں سے زیادہ خواتین شدت سے محسوس کرتی ہیں۔
سروے بتا رہے ہیں کہ فیس بْک کے ذریعے دوستی اور جنسی تشدد کا تناسب دْنیا میں 39 فیصد ،انسٹاگرام23 فیصد، واٹس ایپ 14 فیصد، جیسے دیگر ٹولز، انسانی مواصلات کے لئے غیر معمولی چیزیں بن گئیں ہیں، ان کو مثبت مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ سنگین خطرات کا اصل ذریعہ ہیں جو بعد میں دوسری خطرناک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق %34 خواتین مردوں کے ہاتھوں آن لائن ہراساں ہورہی ہیں۔ خواتین کی ویب اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق جملہ 150ملین انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والوں میں 60 ملین خواتین ہیں۔ جب ایک لڑکی فیس بک، انسٹاگرام یا سوشل میڈیا پر اپنی کوئی بات، سوچ یا اپنی تصاویر پوسٹ کرتی ہے تو اسکی سوچ پر اس قدر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہو کر بعض اوقات خْودکْشی جیسے ناقابل معافی گناہ پر مجبور ہوجاتی ہے۔ لہذا یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو اتنا وقت دیں کہ وہ اپنی قیمتی زندگیاں یوں سوشل میڈیا کے نام پر برباد نہ کر سکیں۔