ہر زمانے میں ہرمعاشرے کے ہر دان ایعنی کہ صاحب عقل ودانش کایہ کہنارہاہے کہ جوانی ایک ایسی دلفریب اور دلکش دولت ہے جواِس دہلیز تک پہنچنے اورزندہ رہنے والے ہر اِنسان(مردو عورت) کو ایک مرتبہ ضرورملتی ہے اِس کا ملنا تو کوئی کمال نہیں ہے بلکہ اِسے عمرکے اِس حصے میں سنبھالناخودکوآگ سے بچانے کے مترادف ہے یعنی یہ کہ جس نے اِسے جوانی کی آگ سے بچالیا تو سمجھوکہ وہ اپنی باقی زندگی سُکھ سے گزارے گااور جس نے اپنی جوانی کو جوانی کی آگ کی نظرکرلیاتو پھر اِس کا زندگی بھرجلناہی مقدرہوگا،اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کام کرنے اور آگے بڑھنے کا دوسرانام جوانی ہے،بس اِسے پانے والے نے خودکوناری (لڑکی )اور نار(آگ)سے بچاناہے تودنیاکی کامیابیاں اِس کا ماتھاچوم لیں گیں ۔
یہاں مجھے لانگ فیلوکا سمجھداروں کے لئے یہ بڑاخُوبصورت قول یادآگیاہے کہ” جوانی میں ہر عورت خود کو ہیروئن اور ہر مردخودکو ہیروسمجھتاہے”مگرخودکو ہیروئن اور ہیروسمجھنے والے جوان کسی ایسی خوش فہمی (شیشے کے محل) میں پھنس کانہ رہ جائیں کہ وہ اِس سے نکل بھی نہ سکیں اور اِن کا خوشنماتصوراِنہیں زیروبنادے،اوربعدمیں وہ اپنی زندگی اِسی پچھتاوے میں گزاردیں کہ ہائے رے ..!کاش کہ ہمیں جب کچھ کرناتھاتو ہم خودکو ہیروئن اور ہیروہی سمجھتے رہے اوریوں خودکو اپنے ہی ہاتھوں تباہ کرلیااَب جس کا خمیازہ ساری عمربھگتناپڑے گا۔
اِسی لئے تو اہلِ دانش یہ کہتے ہیں کہ ” ناعاقبت اندیشی اور خوشنماتصورات اورآئیدیل بننے کی خواہش اور آئیڈیل کے حصول کے چکرمیں پڑکر غفلت میں گزری جوانی یقینازندگی کے باقی دنوں کے لئے غموںاور پشیمانیوں کا ہی پیش خیمہ ہوتی ہے۔ آج جو نوجوان لڑکے جوانی کی مستیوں میں پڑکرخودکو ناریوں (لڑکیوں )کے چکرمیں تباہ کررہے ہیں دراصل وہ اپنی جوانی کو اپنے ہی ہاتھوں ناریوں کی کشش سے لگی نار(آگ) سے خودکو جلاکر اپنی ہی صلاحیتوں کوبھسم کررہے ہیں۔
اگرچہ بقول ہومریہ ٹھیک ہے کہ” جوانی اور شباب کے آگے عقل کا بس نہیں چلتا”مگریہاں راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ” اگرکوئی بھی جوان اِس دوران عقل سے ذرابھی کام لے تو وہ ہومر کے اِس بقول کو چیلنچ کرسکتاہے مگر اِس کے لئے بس شرط صرف یہ ہے کہ وہ جوانی اور شباب کے تھپیڑوں سے خودکو سنبھالے تویقینا وہ اپنے اِس طرح کے عمل سے ہومرکی روح کوتڑپادے گا۔”
Shakespeare
آج یقینا شیکسپئیر کا یہ مشہورِ زمانہ قول اکثر نوجوانوں اور جوانوں کا یادرہتاہے مُسرت، تازگی، جوش، پھرتی اور گرمی یہ جوانی ہے” مگرمیرااپنے آج کے نوجوانوں اور جوانوں (لڑکے اور لڑکیوں) سے یہ کہناضروری ہے کہ خداکے واسطے یہ اپنی جوانی کے دنوں کو ایک دوسرے کی جنسی مگر طلسماتی کشش سے کچھ عرصہ ضروربچالیں تویقینااِن کی ساری صلاحیتیں مُلک و ملت کے لئے کارآمدہوسکتی ہیںاور یہ اپنی صلاحیتوں سے دنیااور آخرت دونوں ہی میں اپنامنفرداور اعلیٰ مقام حاصل کرسکتے ہیں اور تاحیات خودکو جوان رکھ سکتے ہیں جیساکہ رابرٹ شلر کا کہنا ہے کہ ” جوان رہنے کا راز، ایمان داری سے زندگی گزارنے، آہستہ او ر آرام سے کھاناکھانے اور عمر کے متعلق متفکرنہ ہونے اورخودکو ہر معاشرے کے ہرزمانے کی ہربُری لت اور بُری صوبتوں سے بچانے میں ہی ہے ”۔
یہاں میں اپنے مُلک و ملت کے نوجوانوں سے ایک بار پھر انتہائی ہمدردانہ درخواست کرناچاہوں گاکہ ” اللہ کے واسطے نوجوانوں اپنی جوانی عاشقی معاشقی ، ناری کے چکرمیں سگریٹ کی نار(آگ) کے دھوئیں میں مت اُڑادواور اے جوانوں اپنی جوانی کے خوبصورت اور حسین لمحات کو دن رات گلی محلوں کے نکڑوں ،پارکوں نیٹ کیفوں موبائل فونز سے گھنٹوں گھنٹوں بیٹھے لڑکیوں سے باتیں کرنے اور اِن کی دلفریب اور دلکش اداؤںکے کسی ایسے ویسے فالتوچکروں میں پڑکرغرق مت کروکہ پھر بعد میں تمہیں پچھتاناپڑے اور تمہارے ہاتھ سوائے کفِ افسوس کے کچھ بھی نہ آئے۔
پھرکہیں ایسانہ ہوجائے کہ جس لڑکی کے چکرمیں تم نے اپنی جوانی برباد کرڈالی جب بڑھاپے کی کسی دہلیز میں تمہاری ملاقات اُس لڑکی سے ہوجائے تو وہ اپنے بچوں سے تمہاراتعرف یوں کرائے کہ” بیٹایہ بھی تمہارے ماموں ہیں اِنہیں سلام کرو….”اور تب تم کسی کھسیانی بل کے مافق کھمبانوچتے نوچتے رہ جاؤگے کیوں کہ تب تمہارے ہاتھ میں اتنی بھی ہمت نہیں رہے گی کہ تم اپنی قوت سے کھمباہی نوچ سکو،کیوں کہ تم نے تواپنی جوانی اِن بچوں کی ماں کے چکرمیں دن رات جاگ جاگ کراور سگریٹ پی پی کر تباہ کرلی تھی اور اَب بس تم اِس بڑھاپے میںاللہ اللہ کی تسبیح کرنے کے ساتھ ساتھ ا فسوس کے ساتھ یہ گانے کے ہی قبل رہ گئے ہوکہ :۔ سجن رے جھوٹ مت بولو خداکے پاس جاناہے وہاں ہاتھی ہے نہ گھوڑاہے وہاں پیدل ہی جاناہے لڑکپن کھیل میں کھویا جوانی نیندبھرسُویا بڑھاپا دیکھ کر رویا وہی قصّہ پراناہے سجن رے جھوٹ مت بولوخُداکے پاس جاناہے