جیسے جیسے انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں،سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم بھی زوروشورسے جاری ہے۔دہشت گردتنظیموں کی طرف سے 3اہم سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی ،ایم کیوایم،عوامی نیشنل پارٹی کو ملنے والی دھمکیوں کے بعد ان سیاسی جماعتوں کے لئے انتخابات میں حصہ لینا بلا شعبہ ایک اچھا فیصلہ ہے جس پر عوامی حلقوں میں انہیں قدرکی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے دوسری طرف پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی ایک بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اور ابھرتی ہوئی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم زوروں پر ہے جس میں دونوں طرف سے قائدین ایک دوسرے کیخلاف متعددالزامات کی بوچھاڑ کرنے میں مصروف عمل ہیں ،جس کی قطعا کئی ضرورت نہیں ہے۔
الیکشن میں الزامات کی بجائے عوام کو اپنے اپنے انتخابی منشور کے بارے میں آگاہی دی جائے تاکہ عوام فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں کہ کس پارٹی کا منشور عوامی خواہشات کی عکاسی کرتا ہے۔پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں نوجوان طبقہ بہت ہی اہم کردار ادا کرنے جارہا ہے وہ نوجوان جو ہمیشہ انتخابات سے دور رہا اور کبھی بھی ووٹ ڈالنا گوارا نہ سمجھا اب ووٹ ڈالنے کے لئے آمادہ دکھائی دیتا ہے۔جس کی ایک مثال یہ ہے کہ مجھے مری سے میڈیکل کی طالبہ طوبہ عباسی نے گزشتہ دنوں ای میل کی۔جس میں طوبہ عباسی کا کہنا تھا کہ ایک دوسرے کی برائیاں گنوانے والے قائدین صرف اپنا منشورہی عوام سے شیئرکریں ۔طوبہ عباسی ای میل میں لکھتی ہیں کہ کیا ہم نوجوان نسل اپنا مستقبل ان سیاستدانوں کے ہاتھوں پھر سے یرغمال بنا لیں جنہوں نے مختلف ادوار میں 25سال تک عوام کے جذبات سے کھیل۔
Muslim League (N)
اب بھی اقتدار کی ہوس ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی،پچھلے کچھ دن پہلے پنجاب کی ایک بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر میاں شہباز شریف نے ایک جلسہ عام میں جوش خطابت میں یہ فرمایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان صدر زرداری کی زبان بول رہے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف زرداری کی بی ٹیم کا کردار ادا کر رہی ہے ،میں سوچنے پر مجبور ہوئی کہ کیا میاں شہباز شریف ان جھوٹی اور من گھڑت باتوں سے عوام کا دل بہلا کر عوام سے ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائیں گے،کیونکہ ساری عوام جانتی ہے کہ تقریبا ساڈھے 3سال تک پاکستان مسلم لیگ نواز پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹتی رہی اور ان کے درجن بھر وزراء تمام سرکاری مراعات سے بھی مستفید ہوتے رہے،جس پر میاں نواز شریف نے تو یہاں تک فرما دیا تھا کہ ”زرداری صاحب تیری پارٹی کے لوگ تجھے چھوڑ سکتے ہیں۔
لیکن نواز شریف کبھی نہیں چھوڑے گا”،اور پورے 5سال تک زرداری ہی کا ساتھ دیتے ہوئے میاں صاحب نے پنجاب حکومت کے مزے لئے اب عوام جاننا چاہتی ہے کہ ایسا کون سا جادو کردیا ہے صدر زرداری نے کہ آپ نے ان کا ساتھ چھوڑدیا ہے اور عمران خان ان کی بی ٹیم بن گئے ہیں،خدارا عوام سے جھوٹ مت بول کر ووٹ مانگیں،کیا عوام بھول گئی ہے کہ میاں نواز شریف اپنے ہر خطاب میں یہ کریڈٹ لینا نہیں بھولتے کہ زرداری کی حکومت کی مدت پوری کروانے کا سہرا ہمارے سر ہے ،اگر ایسا ہی ہے تو اس بات سے عیاں ہوتا ہے کہ عوام کو مہنگائی،بے روزگاری،دہشت گردی،لوڈشیڈنگ جیسے عذاب،فرقہ واریت کے سمندر میں دھکا دینے کے لئے آپ وفاقی حکومت کے شانہ بشانہ رہ کر عوام کو سسکتے،خودکشیاں کرتے،اپنے بچے بیچتے،اندھیروں میں ڈوبتے،کاروبار تباہ برباد ہونے کا تماشا دیکھتے رہے ،اور حد تو یہ ہے کہ اب بھی یہ بات کرتے ہوئے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
Zardari
اگر ہمیں اقتدار کا موقع ملا تو ہمیں آصف زرداری کی صدارت قبول ہوگی،اور بڑی بہادری سے اپنے گناہوں کا قصور عمران خان کو ٹھہرا دینا کہ وہ آصف زرداری کی بی ٹیم کا کردار ادا کررہا ہے ،سمجھ سے بالا تر ہے،حقیقت تویہ ہے کہ مینار پاکستان کے سائے تلے ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے فقیدالمثال جلسے نے آپ کی آنکھیں کھول دیں،جب لاکھوں عوام کے سامنے عمران خان نے کہا کہ نوجوان ہی میرا اثاثہ ہیں،اور نوجوان ہی ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں،یہ دیکھنا تھا کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد عمران خان کی محبت میں گرفتار ہوچکی ہے تو جناب نے بھی نوجوانوں کواپنی گرفت میں لینے کے لئے لیپ ٹاپ متعارف کروائے اور دھڑا دھڑبانٹے تاکہ نوجوان آپ کی طرف راغب ہوں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔کیونکہ نوجوان باخوبی جانتے ہیں کہ پہلے کہاں تھے آپ ،پہلے تو آپ کو نوجوان یاد ہی نہیں تھے۔
صرف اپنے مفادات کے لئے نوجوانوں میں لیپ ٹاپ ،سولر سسٹم تقسیم کرنے سے نوجوانوں کا ووٹ آپ کو نہیں ملنے والا،ن لیگ شائد بھول چکی ہے کہ نوجوان بھی اب ان کی طرح ہی سوچتے ہیں ،کہ ”دکھائو کچھ،مارو کچھ”طوبہ عباسی مزید لکھتی ہیں کہ تبسم صاحب دیکھنا 11مئی کا سورج نئے پاکستان کی نوید لئے طلوع ہوگا،جس میں تمام اختیارات کا محور صرف عوام ہوگی،اس نئے پاکستان میں کرپٹسیاستدان،اربوں کے قرضے معاف کروانے والے سیاستدان،ایفی ڈرین کی اسمگلنگ میں ملوث لوگ اور اس طرح کے لوگ شامل نہیں ہونگے،نئے پاکستان میں وہی سیاستدان ہونگے جنہیں عوام کے دکھ درد کا احساس ہو گا،وہ نہیں ہونگے جنہوں نے اپنوں میں وزارتیں بانٹی ،کرپشن سے تجوریاں بھریں ،تبسم صاحب ایک اور اہم بات ن لیگ ایک طرف عمران خان کو زرداری کی بی ٹیم کہتی ہے۔
دوسری طرف سننے میں آرہا ہے کہ گجرات اور پشاور میں ن لیگ اور پی پی پی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوچکی ہے تو بتایا جائے عوام کو کہ بی ٹیم کون ہے۔میں اس ای میل کو پڑھ کر سوچنے لگا کہ ہماری نوجوان نسل کس قدر باشعور ہوچکی ہے جو ہر پہلو پر نظر رکھے ہوئے ہے،اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ 66سالوں میں ان سیاستدانوں نے جو حال عوام کا کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے تو یی اس قابل نہیں کہ ان کو اپنا قیمتی ووٹ کاسٹ کیا جائے۔مجھے ایسا لگا کہ نوجوان نسل کو کوئی چاہے کس قدر بھی سہانے سپنے دکھائے ۔
لیپ ٹاپ بانٹے،سولر سسٹم دے ،لیکن نوجوان نسل نے جس کو اپنا ووٹ کاسٹ کرنا ہے وہ اس کا فیصلہ کرچکی ہے اب مزید وہ اس بارے سوچتی ہی نہیں کہ کون سا سیاستدان کیا بیچنے کی کوشش کررہا ہے ۔اور اڑھائی کروڑ نیا بننے والا نوجوان کا ووٹ کس سمت کا تعین کرتا ہے یہ تو 11مئی کا دن ہی ثابت کریگا،اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ نوجوان نسل کا ووٹ جس سیاسی پارٹی کو بھی ملا ،وہی پاکستان میں اگلی حکومت بنائے گی۔
M A Tabassum
تحریر : ایم اے تبسم EMAIL: matabassum81@gmail.com 0300-4709102