افسوس صد افسوس ! کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو پورا سچ لکھے۔ پورا سچ کہے اور سب سے بڑھ کر پورا سچ سننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہمارا نظام زندگی ادھورے سچ پر قائم ہے۔ جنون، تشدد، بائیکاٹ ۔۔۔ یہ اوصاف ہمارا قومی مشغلہ بنتے جا رہے ہیں۔ دنیا کے کسی کونے میں کوئی پاگل، کوئی مجنوں ، کوئی وحشت پسند یا کوئی درندہ صفت اپنے غلیظ ذہن سے کوئی خیال وضع کرے تو ہم نے اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرنا فرض اولین سمجھ رکھا ہے۔ کاش کوئی ہمیں سمجھائے کہ زندگی رد عمل کا نہیں بلکہ عمل کا نام ہے۔ کسی ناپاک جرات کا مدلل جواب دینے کی بجائے ہم نے اپنا سر پھوڑنا ہے اور مال روڈ کی معصوم و بے گناہ عمارتوں کو توڑنا ہے اور یہی اس مجنوں کی خواہش ہوتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ فقط اس لیے کہ ہم اسی حقیقت کو قبول کرنا نہیں چاہتے جسے دنیا نے مان لیا ہے اور وہ یہ کہ دنیا کا قانون کسی ضابطے یا کسی اخلاق کا پابند نہیں ہے بلکہ ایک ہی قانون ہے اور وہ ہے۔۔۔ “جس کی لاٹھی۔ اس کی بھینس۔۔۔”
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سز ا مرگ مفاجات
ہم اپنا احتساب کرنے کو تیار نہیں ہیں، خود فریبی میں رہنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ہر چیز سے سازش کی بو آتی ہے۔ حالانکہ اس قدر لولی لنگڑی معیشت کے ساتھ لا چار امت مسلمہ کے خلاف کسی کو سازش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ خود کو تباہ کرنے کے لیے ہم اور ہمارے خیالات ہی کافی ہیں۔ اکیسویں صدی میں ہماری مثال اس کبوتر کی سی ہے جو خطرے کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے پر یہ سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ ہر مسئلے پر وقتی رد عمل اور اس کا وقتی حل۔۔۔ کوئی ہم سے سیکھے۔
Pakistan
گزشتہ سال ایک ویڈیو فلم کی وجہ سے پاکستان میں یو ٹیوب پر پابندی لگائی گئی۔ ایک سال بعد بھی ہم اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کر سکے۔ بلکہ اس پابندی نے ہماری قیادت کی نا اہلی اور عوام کی منافقت کو ظاہر کیا ہے۔ پوری دنیا کی نظروں میں ہم تماشہ بن کے رہ گئے ہیں۔ ایک طرف وسیع تر تحقیق اور علم کے مرکز پر مکمل پابندی ہے تو دوسری طرف ہم نے دنیا کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ دنیا میں ہماری کوئی وقعت نہیں ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی طاقت بھی اتنی نہیں ہے کہ وہ یو ٹیوب سے ایک فلم ہی ڈیلیٹ کروا سکیں۔ ظاہر ہے ہو بھی کیسے۔ ہم نے دنیا کو کیا دیا ہے؟ ہمارے پاس ہمارے جابر بن حیان، الخوارزمی، ابن الہیثم کے قصے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ آج حرم پاک میں فروخت ہونے والے جائے نمازوں سے لے کر میڈیکل اور انجینئرنگ کی کتابوں تک، بالوں میں پھیرنے والی کنگھی سے لے کر جنگوں میں استعمال ہونے والے ٹینکوں تک سب کچھ غیر مسلموں کی ایجاد ہے۔
معیشت کی الف ب سمجھنے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ بڑے بڑے ادارے صرف انہی لوگوں کا خیال رکھتے ہیں جو ان کے لیے کوئی ویلیو رکھتے ہیں۔ یو ٹیوب کو ہم نے کیا دیا ہے؟ اس کی آمدن میں ہمارا کیا کردار ہے؟ اس وقت امریکا یو ٹیوب کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ امریکا کے بعد اگر10بہترین ممالک کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو پوری فہرست میں ایک بھی مسلم ملک کا نام نہیں۔ اس فہرست میں یو کے اول ہے اور انڈیا کا دوسرا نمبر ہے، اسی طرح اگر یو ٹیوب کے 10بہترین آزاد چینلز پر نظر ڈالی جائے تو ان میں بھی کسی چینل کا تعلق مسلم ملک سے نہیں ہے۔ مارچ 2010 میں جب یو ٹیوب نے مفت لائیو نشریات کا آغاز کیا تو انڈین پریمئر لیگ کے 60 میچز کو مفت دکھایا گیا تھا۔ جب کہ ہم ان دنوں دنیا کو عسکریت پسندی، تشدد اور فرقہ واریت برآمد کر رہے تھے۔ جنوری 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق یو ٹیوب پر روزانہ 4بلین سے زیادہ وڈیوز دکھائی جا رہی ہیں اور اس وقت روزانہ 60گھنٹے سے زیادہ وڈیوز اپ لوڈ ہو رہی ہیں۔ ہماری پابندی سے انہیں کیا فرق پڑتا ہے؟
میں نے عرض کیا تھا کہ قیادت کی نا اہلی اور عوام کی منافقت دونوں ہی واضح ہو گئی ہیں۔ ایک طرف حکمران اس قدر فاتر العقل ہیں کہ مذاکرات کی میز پر یو ٹیوب کے مالکان سے ایک وڈیو تک ڈیلیٹ نہیں کروا سکے اور دوسری طرف۔۔۔ عوام اس قدر خود فریبی کا شکار ہیں کہ یو ٹیوب پر پابندی لگوانے کے بعد ہر روز “دو نمبر ” طریقے سے یو ٹیوب کھولتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے عشق رسول ۖ کا حق ادا کر دیا۔
اگر میں ابھی لکھوں کہ یو ٹیوب کھول دی جائے تو میں اور میرا سارا قبیلہ “غیرت مند مسلمانوں ” کی زد میں آجائیں گے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ مسلمانوں کے ملک میں پابندی کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پابندی کے بغیر ہی آپ یو ٹیوب سے منہ موڑ لیتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پابندی کے باوجود ہر کوئی یو ٹیوب کھولتا ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پابندی کے حق میں تقریریں کرتے اور دلائل دیتے ہیں۔ اگر حکومت ابھی یو ٹیوب کھولنے کا اعلان کر دے تو ہمارے ٹی وی چینلز شور مچائیں گے کہ حکمران غیر مسلموں کے اثر سے مرعوب ہو کر ایسا کر رہے ہیں اور وڈیو ابھی تک موجود ہے جبکہ ان چینلز کی حقیقت دیکھنے کے لیے یو ٹیوب پر ابھی جا کر ان کے پروگرامز سرچ کریں۔
ہر پروگرام 5 سے 10 منٹ بعد اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے۔ اگر یو ٹیوب پر پابندی ہے تو یہ اپ لوڈ نگ کہاں سے ہو رہی ہے؟ ارے دوستو۔۔۔! یو ٹیوب پر پابندی سے کچھ نہیں ہو گا۔ اپنے نفس پر پابندی لگائو۔ اپنی خواہشات پر پابندی لگائو۔ اگر عشق رسول کا اتنا دعویٰ ہے تو اپنے کردار سے ثابت کرو۔ دنیا کی نظروں میں اس طرح تماشا بننے سے بہتر ہے کہ حقیقت کا سامنا کرو اور حقیقت یہ ہے کہ یو ٹیوب وقت کی ضرورت ہے لیکن کیا کروں اب یو ٹیوب کا معاملہ کمیٹیوں کے سپرد ہے۔ پاکستان میں اس کے لیے ایک بین الوزارتی کمیٹی ہے جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، پی ٹی اے، ایف آئی اے، مذہبی امور کمیٹی و دیگر شامل ہیں۔ تمام کمیٹیاں کب سر جوڑ کر بیٹھیں گی اور کب مسئلہ حل ہو گا؟ نہ سو من تیل ہو گا۔۔۔ نہ رادھا ناچے گی۔۔۔