صوبہ خیبرپختونخواہ کے شہر پشاور کے محلہ خدادا میں لالہ غلام سرور کے خاندان میں ایک خوبرو لاڈلا گیارہ دسمبر 1922 میں پیدا جس کا نام یوسف خان رکھا گیا والدہ کا نام عائشہ بیگم تھاغلام سرور خان پھلوں کا کاروبار کرتے تھے اور ان کے 12 بچے تھے جن میں یوسف خان کا نمبر چوتھا تھاجب یوسف صرف چھ سال کے تھے تو ان کے والد پورے خاندان کو لے کر ممبئی منتقل ہو گئے، تب تک بر صغیر کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا پشاور سے ممبئی منتقلی کے بعد یوسف نے وہاں اسکول اور کالج میں تعلیم پائی، جنگ کے دنوں میں والد کا کاروبار نقصان میں جانے کے باعث انہوں نے ایک دو جگہ نوکریاں بھی کیں لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ایک زمانے میں یوسف انڈیا کے بہترین فٹبال کھلاڑی بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے۔
ان کے ساتھ خالصہ کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے راج کپور جب پارسی لڑکیوں سے فلرٹ کرتے تھے تو تانگے کے ایک کونے میں بیٹھے شرمیلے یوسف کبھی کبھی صرف ان کی طرف نگاہ ڈال دیتے تھے۔کون جانتا تھا کہ ایک دن یہ لڑکا انڈیا کے فلمی شائقین کو خاموشی کی زبان سکھائے گا اور اس کی ایک نظر وہ سب کچھ کہہ جائے گی جو کئی صفحات پر مشتمل مکالمے بھی ادا نہیں کر پائیں گے روزگار کی تلاش میں کم عمری میں ہی انہوں نے صنعتی شہر بمبئی کا سفر کیا اور بمبئی پہنچ کر برطانوی فوج کی ایک کینٹین میں کام کرنا شروع کیا۔
اسی کینٹین میں اس وقت کی معروف اداکارہ دیویکا رانی اور ان کے شوہر ہمانشو رائے کی ان پر نظر پڑی اس خوبرو نوجوان سے بات چیت کے بعد انہیں فلم میں اداکاری کی پیشکش کی دیویکا رانی نے ہی انہیں یوسف خان کے بجائے دلیپ کمار نام اپنانے کی تجویز پیش کی تھی دلیپ کمار کی بطور اداکار 1944 میں ریلیز ہونے والی پہلی فلم ‘جوار بھاٹا’ تھی باکس آفس پر یہ کوئی بہت کامیاب فلم نہیں تھی مگر فلم انڈسٹری میں اپنی اصل پہچان 1960میں تاریخی فلم ‘مغلِ اعظم’ میں شہزادہ سلیم کا کردار ادا کرکے بنائی دلیپ کمار نے اپنے فلمی کیرئیر کے دوران مغل اعظم، ملن، جگنو، شہید، ندیا کے پار، انداز جوگن، بابل، آرزو، ترانہ، ہلچل، دیدار، سنگدل، داغ، آن، شکست، فٹ پاتھ، امر،اڑن کٹھولا، انسانیت، دیوداس، نیا دور، پیغام، کوہ نور، گنگا جمنا، شکتی، سمیت کئی لازوال فلموں میں عمدہ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ان کی خدمات کے پیشِ نظر حکومت ہندوستان کی طرف سے انہیں پدما بھوشن ایوارڈ، دادا صاحب پھالکے سمیت کئی اعزازات دئیے گئے یوسف نے 6 دہائیوں پر محیط اپنے فلمی کیریئر میں صرف 63 فلمیں کیں1947 میں انہوں نے نور جہاں کے ساتھ فلم ‘جگنو’ کی اور یہ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی 1949 میں انہوں نے اس وقت کے بڑے اداکار راج کپور کے ساتھ مل کر فلم ‘انداز’ میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور اس فلم کی ہیروئن نرگس تھیںاسی فلم میں ان کے شاندار اسٹائل اور عمدہ لب و لہجے نے انہیں ایک مقبول اسٹار بنا دیا۔
انداز کی شاندار کامیابی کے بعد ان کے انتہائی یادگار فلمی سفر کا آغاز ہوا۔ 1951 میں فلم ‘دیدار’ کی اور اگلے ہی برس ان کی مشہور فلم داغ ریلیز ہوئی۔ داغ فلم میں بہترین اداکاری کے لیے انہیں پہلے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1955 میں ان کی شہرہ آفاق فلم ‘دیوداس’ آئی اور اس کے لیے بھی انہیں فلم فیئر ایورڈ دیا گیا۔اس دور میں بیشتر فلموں میں اسکرین پر ان کی شخصیت کو ایک بہت ہی غمزدہ اور قسمت و حالات کے مارے ہوئے انسان کے کردار میں پیش کیا گیا۔ ایسے کرداروں میں انہوں نے اپنی فنی صلاحیتوں کے ایسے ان مٹ نقوش ثبت کیے کہ انہیں ٹریجڈی کنگ یعنی شہنشاہ جذبات کے لقب سے نوازا گیا اور پھر یہی لقب ان کی پہچان بن گیا۔وقت کے ساتھ ہی بالی وڈ میں ان کا وقار بڑھتا چلا گیا اور بہت سی فلموں میں انہین رومانی ہیرو کے لیے کاسٹ کیا گیا۔ ان میں ‘آن’، ‘آزاد’ ‘انسانیت’ اور ‘کوہ نور’ جیسی کامیاب فلمیں اس بات کی گواہ ہیں کہ دلیپ کمار نے رومانٹک ہیرو کے طور پر بھی ایک شاندار روایت چھوڑی۔
سن 1960 میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم مغل اعظم جہاں خود ایک شاہکار تھی وہیں مغل شہزادے سلیم کے کردار میں ان کی اداکاری کے جوہر کا سب نے اعتراف کیا۔ان کی فلم، مدھو متی، گنگا جمنا، رام شیام، نیا دور، کرانتی، ودھاتا اور کرما بالی ووڈ کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہیں، جو باکس آفس میں بھی سپر ہٹ رہیں۔ راج کمار کے ساتھ فلم ‘سوداگر’ اور امیتابھ بچن کے ساتھ ‘شکتی’ بھی قابل ذکر فلمیں ہیں، جس میں انہوں نے اپنے ہم عصر سپر اسٹاروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک الگ انداز اور شناخت پیش کی۔بڑے پردے پر ان کی آخری فلم 1998میں ‘قلعہ’ آئی تھی۔ دلیپ کمار نے متعدد بار فلم فیئر ایوارڈ جیتا اور 2015 میں بھارت کے دوسرے سب سے بڑے سویلین اعزاز ‘پدم بھوشن’ اور 1994میں فلموں کے سب سے بڑے ایوارڈ ‘دادا صاحب پھالکے ایوارڈ’ سے نوازا گیا تھا۔ 1997 میں حکومت پاکستان نے بھی دلیپ کمار کو اپنے اعلی سول اعزاز نشان امتیاز سے نوازا۔کانگریس پارٹی نے دلیپ کمار کو پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا تھا اور اس طرح وہ چھ برس تک رکن پارلیمان بھی رہے۔
ایک دور میں دلیپ کمار کے ان کی ساتھی اداکاراؤں کے ساتھ معاشقوں کے بھی کافی چرچے رہے۔ اس میں سب سے پہلے کامنی کوشل کا نام آتا ہے۔مدھو بالا سے ان کے تعلق کے بارے میں بھی کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔ فلم ترانہ کی شوٹنگ کے دوران ان کی مدھو بالا سے دوستی ہوئی تھی اور کہا جاتا ہے کہ سات برس تک ان کا یہ رومان چلا۔تاہم بعد میں بعض اختلافات کے سبب دونوں میں ایسا اختلاف پیدا ہوا کہ فلم مغل اعظم کے بعد کبھی بھی ایک ساتھ کام نہیں کیا۔ اس کے بعد اداکارہ وجنتی مالا سے بھی ان کے افیئر کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
پردے پر بھی دلیپ کمار اور وجنتی مالا کی جوڑی بھی بہت کامیاب رہی۔ دلیپ کمار نے سب سے زیادہ کام بھی انہیں کے ساتھ کیا۔ 1966 میں دلیپ کمار نے اداکارہ سائرہ بانو سے پہلی شادی کی، جو عمر میں ان سے 22 برس چھوٹی تھیں 1981 میں انہوں نے حیدر آباد سے تعلق رکھنے والی خاتون اسما صاحبہ سے دوسری شادی کی۔ تاہم یہ دوسری شادی زیادہ دیر تک نہیں چل سکی اور 1983 میں طلاق ہو گئی۔دلیپ کمار کو ان دونوں بیویوں سے کوئی اولاد نصیب نہیں ہوئی سائرہ بانو اور دلیپ کمار نے سن 2013 میں مکہ کا سفر کیا اور ایک ساتھ حج ادا کیا۔بالی ووڈ فلم نگری پر طویل عرصے تک راج کرنے والے لیجنڈری اداکار دلیپ کمار 98 سال کی عُمر میں انتقال کر گئے دلیپ کمار کے انتقال کی خبر اُن کے تصدیق شدہ ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اُن کے ترجمان فیصل فاروقی کی جانب سے دی گئی ہے۔ دلیپ کمار 7جولائی صبح 7 بج کر 30 منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے رب کائنات ان کے درجات بلند فرمائے آمین۔