تحریر : محمد شاہد محمود پنجاب کے ضلع قصور میں سات سالہ بچی زینب سے زیادتی اور قتل کے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ عمران نامی اس ملزم کی گرفتاری کا اعلان منگل کے روز وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ اس پریس کانفرنس کے دوران شہباز شریف نے تفتیش کاروں کے لیے تالیاں بجوائیں جس پر انہیں مختلف حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔سوشل میڈیا پر پریس کانفرنس کی ایک تصویر گردش کر رہی ہے جس میں وزیرِ اعلیٰ سمیت دیگر حکام کو ہنستے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس تصویر پر لوگ یہ کہہ کر تنقید کر رہے ہیں کہ زینب کے والد کے ساتھ بیٹھ کر اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کا اس طرح کا انداز نامناسب ہے۔قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں شہباز شریف کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان سے معذرت کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ قصور واقعہ کا ملزم پکڑے جانے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، گزشتہ روز پریس کانفرنس میں کھڑے ہو کر تالیاں بجائی گئیں۔ انہوں نے کہا کیا ایسے واقعے کے بعد تالیاں بجائی جاتی ہیں؟۔
خورشید شاہ کے اس بیان پر اب تک پنجاب حکومت یا وزیرِ اعلیٰ کی طرف سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر شہباز شریف کو زینب کے والد کا مائیک بند کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر پریس کانفرنس کی ایک ویڈیو موجود ہے جس میں شہباز شریف زینب کے والد کا مائیک بند کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ زینب کے والد اس وقت ملزم کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے تھے، ان کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی وزیرِ اعلیٰ نے ان کے سامنے پڑے دونوں مائیک بند کر دیے۔زینب کے قاتل کی گرفتاری کے اعلان کے وقت پریس کانفرنس کے دوران کچھ ایسے معاملات بھی ہوئے جن پر تنقید کی جا رہی ہے۔لاہور میں پریس کانفرنس سے پہلے رانا ثناء اللہ نے زینب کے والد کو کیا سمجھایا؟ کیا ہدایات دیں؟ ایسے ہی ان گنت سوالات ہیں جن کے جواب آنا ابھی باقی ہیں۔ زینب کے والد کا کہناہے کہ شہباز شریف نے پریس کانفرنس کے دوران ہمارے غم اور آنسووں پر تالیاں بجوائیں۔
پریس کانفرنس میں تالیاں بجانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اپنی بچی کے غم میں تڑپ رہے ہیں اور آنسو بہا رہے ہیں، تاہم پریس کانفرنس میں موجود شرکاء نے اسی تڑپ اور آنسوئوں پر تالیاں بجائیں۔ کیا ملزم کے گزشتہ ڈھائی سال سے بچیوں کے ساتھ ریپ کے واقعات میں ملوث ہونے پر تالیاں بجائی گئیں۔کمسن زینب کے والد محمد امین نے کہاکہ ملزم کے گھر والے سب کچھ جانتے تھے، جنہوں نے ملزم کو چھپائے رکھا جبکہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص نے بچی کو اتنے چھوٹے گھر میں 5 دن تک رکھا اور بعد میں قتل کیا لیکن گھر میں موجود کسی کو بھی معصوم کی چیخ سنائی نہیں دی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملزم کے گھر والے بھی جرم میں برابر کے ملوث ہیں، انہیں بھی شامل تفتیش کیا جانا چاہیے۔ محمد امین نے شہباز شریف پر زبردستی مائک بند کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ جیسے ہی اپنے مطالبات بتانے لگے تو اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب نے ان کے سامنے موجود دونوں مائیکس بند کر دیئے۔ دوسری جانب مقتولہ کی والدہ نے کہا کہ ملزم کو تو گرفتار کر لیا گیا لیکن چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ آج سے ہی ملزم کی سزا کا آغاز کیا جائے اور وہ ظالم جن ہاتھوں سے معصوموں کے گلے دباتا رہا وہ ہاتھ ہی کاٹ دیے جائیں۔حاجی امین نے کہا ہے کہ ملزم عمران سے کچھ سوالات کرنا چاہتا تھا، ترجمان پنجاب حکومت نے ملزم سے ملاقات کا وعدہ کیا لیکن ملاقات نہیں کرائی گئی، وزیر قانون پنجاب نے ملزم کی گرفتاری سے قبل کہا کہ ملزم ان کا کوئی رشتہ دار ہے جو ہم نے چھپایا ہوا تھا، ہم پاگل نہیں تھے کہ ملزم کو گھر پر چھپا کر رکھتے، سب سے پہلے ہمارے خاندان کے ڈی این اے ہوئے، ملزم کو سخت سزا ملنی چاہیے۔
سفاک قاتل عمران علی کی گرفتاری سے قبل یہ خیال کیا جارہا تھا کہ قاتل انتہائی شاطر شخص ہے مگر گرفتاری کے عمل کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ آٹھ بچیوں کو قتل کرنے والا ملزم نہ تو زیادہ ذہین ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی نیٹ ورک کام کررہا تھا بلکہ یہ معصوم بچیاں اس لئے زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد قتل کردی گئیں کہ پولیس نے پہلے مقدمہ سے لے کر زینب کی ہلاکت تک کسی بھی کیس کو نہ تو سنجیدگی سے لیا اور نہ ہی ذمہ داری سے ابتدائی تفتیش کی ورنہ روڈ کوٹ کی گلی نمبر 6میں رہنے والے عمران علی کی گرفتاری اور اس تک پہنچنا کوئی مشکل امر نہیں تھا۔زینب کی ہلاکت کے مقدمہ نے جہاں پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے وہیں پر پولیس کی مجرمانہ غفلت کے کئی ایک واقعات بھی منظر عام پر آتے جارہے ہیں مثلاً گزشتہ سال پولیس نے فروری کے مہینے میں مدثر حسین نامی ایک شخص کو گھر سے بلا کر قتل کردیا اور اس پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اس سے قبل قتل ہونے والی سات بچیوں کے اغواء اور قتل میں ملوث ہے۔ واضح رہے کہ متاثرہ بچیوں میں پانچ سالہ ایمان فاطمہ بھی تھی جس کے قتل کے شبہ میں بے گناہ مدثر کو ہلاک کردیا گیا۔زینب قتل کیس کے مرکزی ملزم عمران زینب سمیت دیگر معصوم کلیوں سے زیادتی اور قتل کا اعتراف کر لیا۔ پولیس کو اعترافی ویڈیو بیان میں ملزم عمران کا کہنا ہے زینب کو والدین سے ملوانے کا کہہ کر گھر سے لے کر گیا، زینب بار بار پوچھتی رہی ہم کہاں جا رہے ہیں، جواب میں راستہ بھولنے کا بہانہ بنا دیا۔
ملزم نے مزید انکشاف کیا کہ وہ بچیوں کو نیاز کے چاول، ٹافیاں اور بالوں میں لگانے والے کلپ دلوانے کے بہانیساتھ لے جاتا۔ عمران نے چلڈرن اسپتال میں داخل کائنات کو دہی دلوانے کے بدلے اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنانے کا بھی اعتراف کر لیا۔جے آئی ٹی ذرائع کے مطابق ملزم عمران نے زینب کو پونے 7 بجے اغوا کیا اور پکڑے جانے کے خوف سے کوڑے کے ڈھیر پر لے گیا۔ گرفتاری کے بعد ملزم عمران کو سخت سکیورٹی حصار میں لاہور کی انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے ملزم کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مدثر کے قتل یا مبینہ پولیس مقابلہ کی سازسرنوتحقیقات کی جائیں گی تاہم قصور کے شہریوں کا پولیس کے خلاف غم و غصہ اور ناراضی بدستور برقرار ہے کیونکہ ملزم کی گرفتاری کے بعد چھٹنے والی دھند نے اس امر کو روز روشن کی طرح عیاں کردیا ہے کہ قصور میں یکے بعد دیگرے معصوم بچیوں کو اغواء اور زیادتی کے بعد قتل کیا جاتا رہا مگر پولیس کی مجرمانہ غفلت سے قاتلوں کے حوصلے بڑھتے رہے اور ایک درجن معصوم بچیاں لقمہ اجمل بن گئیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ امر بھی سامنے آیا ہے کہ بستی قادر آباد سے جس بچی کو اغواء کیاگیا اور جب اغواء کے بعد بچی کی نعش ملی اور عوام سڑکوں پر نکلے تو گرفتار کئے گئے ایک اور ملزم کو مبینہ مقابلہ میں ہلاک کردیا گیا حالانکہ یہ دونوں بچیاں حال ہی میں آنے والے ڈی این اے میں ان مقتولین میں شامل ہیں جن کا ڈی این اے ملزم عمران علی سے ملا ہے اور پولیس دو بندوں کو یکے بعد دیگرے مارتے وقت یہ دعوے کررہی تھی کہ ان دو بچیوں کے قاتل جعلی مقابلے میں مارے جانے والے لوگ ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس دو سال تک عوام کی آنکھیوں میں دھول جھونکتی رہی اور بالآخر جب زینب کے قتل کے بعد پرامن شہری ملزم کی گرفتاری کے لئے پرامن احتجاج کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے پہنچے تو ان پر اندھا دھند گولیاں چال کر دو شہریوں کو ہلاک اور تین کو شدید زخمی کردیا گیا۔یہاں پر ایک اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے بعد جب پنجاب حکومت متحرک ہوئی اور ملزم کی گرفتاری کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تو دیگر اضلاع کے پولیس افسران کو بھی چھاپہ مار ٹیموں میں شامل کیا گیا مگر اس کے باوجود چودہ روز گزرجانے کے بعد بھی پولیس اور دوسری متعلقہ ایجنسیاں ملزم کے متعلق کوئی سراغ نہ لگاسکیں اور آخر سپیشل برانچ کے ملازمین ہی ملزم کا پتہ چلانے میں کامیاب ہوسکے۔ یہاں ایک اور اہم سوال بھی کھڑا ہوگیا ہے کہ اگر آٹھ بچیوں کو عمران علی نے قتل کیا ہے تو باقی چار قتل کی جانے والی بچیوں کا قاتل کون ہے اور اس کی گرفتاری کے لئے پولیس کیا کررہی ہے اور اس سے پہلے کیا کرتی رہی ہے؟