تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم دروجد ید کے زید درندوں نے ایک اور زینب کو اپنی سفاکیت کا نشا نہ بنا کر عالم اِنسا نیت کا قتل کر ڈالا ہے، سا نحہ قصورزینب کے اغوا اور قتل کے بعد احتجاجی مظاہریں پر پولیس کی سیدھی فا ئرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کے واقعے بعد مُلک میں لاقانونیت اور انارگی کی جیسی فضا پیداہوئی ہے اِس کی ذمہ دار حکومت اور عوام کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہنے والا محکمہ پولیس کا ہے، جس کی ناقص کارکردگی اور فرسودہ حکمتِ عملی سے ہمیشہ قاتل آزاد اور مقتولین کے لواحقین مشکلات اور پریشا نیوں کا شکار ہو ئے ہیں یہ کو ئی نئی بات نہیں ہے ہمیشہ ہی سے ہماری پولیس نے جرائم پیشہ افراد کے کارناموں اور کرتوتوں پر پردہ ڈال کر اِنہیں بچا نے اور شریف النفس شہریوں کو ڈرا دھمکاکر پکڑ کر تھا نے اور جیلیں ہی بھریں ہیں۔
یقینا ایسا اُس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک حکمران الوقت پولیس کو لگام دینے کے بجا ئے اِس سے یاری نبھا تے رہیں گے اُس وقت تک تو پولیس ایسا ہی کرتی رہے گی جیسا یہ ابھی کررہی ہے چو نکہ محکمہ پولیس میں میرٹ کو قتل کرکے سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ہوتی رہیںگیں تو پولیس کی کارکردگی بھی صفرہی رہے گی اور زینب کے قاتل بھی آزاد ہی رہیں گے اور جب زینب کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے قصور کے مکین احتجاج کریں گے تو پھر سیاسی بنیادوں پر بھرتی پولیس والے مظاہرین پر سیدھی فا ئرنگ ہی کریں گے اور کیا کریںگے ؟چونکہ اِنہیں ایسا کرنے کے لئے اُوپر سے حکم ملتا ہے اور پولیس اُوپر کے حکم کی غلام ہوتی ہے۔
آج قصور میں سات سالہ معصوم زینب کے بہما نہ قتل کے بعد مظاہرین پر پولیس کی جا نب سے سیدھی فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد کی ہلاکت اور متعدد زخمی ہونے والے واقعے پر پوری پا کستا نی قوم سراپا احتجاج ہے ،پچھلے دِنوںقصور سے احتجاج کا جو سلسلہ شروع ہواتھا اَب یہ سلسلہ ملک کے دیگر شہروں تک پہنچ رہاہے کل بھی زینب قوم کی بیٹی تھی اور آج بھی ہے، زینب کے قتل جیسے سا نحات پہلے بھی ہوئے ہیں ، مگر بے حس حکمرا نوں کی ہٹ دھرمی اورآئین اور قا نون میں سقم کے باعث قاتل بچ نکلے ،آج جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سفاک قاتلوں نے پہلے پھول کی پتی سے زیادہ نازک اور خوبصورت معصوم زینب کو اغواکیا اور پھر زیادتی کا نشا نہ بنا کر اِس معصوم ننھی پری کو سفاکی سے قتل کرکے کچرا کنڈی میں پھینک دیا۔
بچی کے ساتھ قاتلوں نے جو کیا وہ حکمرانو، سیاستدانوں اور سیکیورٹی فرا ہم کرنے والے اداروں کے چہروںپر گٹر کی کا لی کیچڑ ہے اگر ابھی یہ لوگ اپنے چہروں پہ لگی کیچڑ کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی زبان سے چا ٹ کھا ئیں تو یہ اِن کی کم ظرفی ہوگی ورنہ آج بھی عوام کاقوی خیال یہی ہے کہ یقینا اِس مرتبہ بھی ایسا ہی کچھ ہوگا، چونکہ کبھی بھی ہما رے حکمرانو، سیاستدانوں اور ایوانوں نے اِس حوالے سے مستحکم اور دیر پاقانون سازی کرنے کی جانب سنجیدگی سے توجہ نہیں دی ہے جس کا ہر بار فا ئدہ سفاک قاتلوں کو ہی پہنچا ہے اور لگتا ہے کہ ابھی ہمارے حکمران ، سیاستدان اور پارلیمنٹ اِس طرف آئین اور قانون سازی میں اپنا وقت ضا ئع نہیں کرناچاہتے ہیں پوری اُمید ہے کہ زینب کے قتل اور سانحہ قصور کے بعد مظاہرین کا احتجاج بھی بے مقصد رہے گا اور جس مقصد کے لئے احتجاج کیا جارہاہے زینب کے قاتل اورعوام پر سیدھی فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکار سوا ئے لا ئن حاضر اور معطل کئے جا نے کے آزادی سی گھومتے پھیریں گے اور حکمران اور سیاستدان اور ایوان بچوں کو اغوا اور زیادتی کے بعد کئے جا نے والے واقعا ت کے ملزمان کو عبرت ناک سزا دینے کے خاطر آئین اور قا نون سازی کر نے کی بجا ئے ٹال مٹول سے کا م لیں گے حکمرا نوں اور سیاستدان اور قا نون سازی کرنے والے ایوانوں کی اِس بے حسی کے بعد ابھی آپ کیا زینب کے بہما نہ قتل پر آپ یہ نہیں کہیں گے کہ زینب میں تمہیں اِنصاف دِلاوں گا؟ بہت ہوچکی ہے ، اَب پا نی حد سے گزرچکاہے، لازم ہے کہ آج ہرپاکستا نی قوم کا فرد زینب کو اِنصاف دِلا نے کے لئے اُٹھ کھڑا ہو، تو ہم مُلک سے وحشی درندوں اور جنسی قاتلوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔
کیا سرزمین پاکستان سے انسا نیت ختم ہو گئی ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ کیا ہوگیاہے کہ حد ہو گئی ہے ،آج درندوں نے سرزمینِ پاکستان(قصور) پرایک اور معصوم بچی کو اپنی وحشیا نہ ہوس کا نشا نہ بنا کر مسخ کرکے رکھ دیاہے، اور ہم اِس المنا کی پر ہمیشہ کی طرح تلملا کر چیخ چلا کر خا موش ہوجا ئیں گے،ہمارے چیخنے چلانے اور آہ و فغاں کا تماشہ حا کم الوقت، پولیس والے اور معصوم زینب کے قا تل بھی دیکھیں گے ،اور پھر وہی ہوگا جیسا ہوتا آیا ہے،ہم بھی یوں ہی چیخ چلا کر خا موش ہوجا ئیں گے ،حاکم الوقت کی معنی خیز خا موشی اور محکمہ پولیس جیسے ا داروں کے قاتلوں سے دوستا نہ مراسم اور تعلقات کے با عث قا تل پھر آزادی سے گھومیں پھریں گے اور پھر چند دِنوں بعد پھر کو ئی معصوم قا تلوں کی ہوس کا نشا نہ بن کر سفاکیت کی پھینٹ چڑھ جا ئے گا اورہم پھر سینہ گوبی کریں گے اور سڑکوں پہ آئیں گے پھر کو ئی رانا ثنا ءا للہ جیسا کوئی حکومتی وزیرقاتلوں کے کرتوتوں پہ پردہ ڈالتے ہوئے کہہ دے گا کہ ” والدین اپنے بچوں کی خود حفاظت کریں،ہر کام حکومت کے کرنے کے نہیںہوتے ہیں“ اور زینب کے المناک قتل اور سا نحہ ما ڈل ٹاون کی طرح احتجاج کرتے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس والوں کو پھر کوئی راناثنا ءا للہ جیسا کو ئی وزیرسیدھی فائرنگ کا حکم دے کر دوچار نہتے مظاہرین کو مروا دے گا مگر حکومتی سطح پر قاتلوں کو جنگی بنیادوں پر گرفتار کرکے کیفرِ کردار تک پہنچا نے سے کنارہ کشی اختیار کیا جا ئے گا اور یہ سلسلہ جاری رہے گا،یا پھر زیادہ سے زیادہ شہباز شریف جیسا پھر کوئی وزیراعلیٰ کسی معصوم مقتول کے لواحقین کو پانچ دس لاکھ کی مدد کرنے کا اعلان کرکے اپنی ذمہ داری اداکرنے کا دعویٰ کرتا پھرے گا اورجنسی زیاتی کے بعدقتل کئے جا نے والے واقعات سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل نکا لے بغیر فا ئل بند کردی جا ئے گی۔
اگرچہ، چیف جسٹس ، آرمی چیف اور وزیراعلیٰ پنجاب نے زینب کے سفاکا نہ قتل اور اِس کے بعد پیداہونے والی صورتِ حال پر نوٹس لیا ہے مگر اِس مرتبہ اِن تمام حضرات کی جا نب سے صرف نوٹس لینے سے کام نہیں چلے گا جنابِ عالی، بہت ہوچکی ہے، آپ حضرات کی جانب سے پہلے بھی بہت سے نوٹس لیے گئے ہیںمگر ہر بار نتیجہ صفر در صفر ہی نکالا ہے ، خدارا اگر آج آ پ لوگوں نے حقیقی معنوں میں نوٹس لے ہی لیا ہے تو پھر زینب اور اِس سے پہلے اغوا کئے گئے بچوں کو سفاک وحشی درندوں کے جنسی درندگی کا نشا نہ بنا ئے جا نے کے بعد سیکڑوں معصوم بچوں اور خواتین اور افراد کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرکے عبرت ناک سزا (پھانسی)دے کر قاتلوں کو رہتی دنیا تک نشا نہ عبرت بنا دیا جا ئے تا کہ میرے دیس پاکستان کی سرزمین سے پھر کوئی زینب اور معصوم بچے اور خواتین کسی وحشی درندے کی ہوس کا نشا نہ نہ بن سکیں۔ (ختم شُد)