زینب کے قاتل عمران کا عدالتی انکاؤنٹر

Imran

Imran

تحریر : منیر محمد
انسداد دہشت گردی کورٹ نے زینب قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم عمران کو چار بار سزائے موت اور بتیس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ یہ سزا جہاں بہت سے لوگوں کے لیے اطمینان قلب کا باعث بنی وہیں بہت لوگ کہہ رہے ہیں کہ اکیلے عمران کو قربانی کا بکرا بنا کر کچھ لوگوں کو بچایا گیا ہے جوکئی سالوں سے جاری یہ گھناؤنا کھیل کچھ عرصے بعد پھر کسی اور شکل میں شروع کردینگے (یاد رہے،تین دن پہلے حافظ آباد میں 90 نوجوان لڑکیوں کا بون میرو نکال کر فروخت کرنے والا گروہ گرفتار ہوا ہے) اور اس عالمی نیٹ ورک کے پکڑے جانے کے امکانات جو پہلے ہی معدوم ہیں وہ امکانات بھی عمران کی پھانسی کے ساتھ ھی ختم ھو جائیں گے۔ آئیے ان سوالات اور شکوک وشبہات کا تجزیہ کرکے دیکھیں کہ یہ بے بنیاد ہیں یا پھر واقعی جواب طلب۔ پھانسی کے اس فیصلے پہ سب سے پہلا اور بڑا سوالیہ نشان، زینب کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اٹھاتی ہے میڈیا پہ دکھائی جانے والی رپورٹ اگر درست ہے تو اس میں واضع طور پہ لکھا ہے کہ زینب سے ایک سے زیادہ لوگوں نے زیادتی کی، تشدد کیا اور کلائیاں کاٹیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے سزا صرف ایک کو کیوں؟

اس فیصلے پہ دوسرا بڑا شک یہ کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنا تیز رفتار ٹرائل کسی کیس میں نہیں ہوا کہ قتل جیسے سنگین جرم کا چار دن میں کیس مکمل کرکے سزا سنادی جائے (ابھی پچھلے ہفتے زمین کے تنازعے کے ایک کیس کا فیصلہ سو سال بعد سنایا گیا ہے، سالہا سال مقدمات کا چلنا یہاں معمول ہے) حالانکہ زینب قتل کیس ملکی تاریخ کے ہائی پروفائل مقدمات میں سے ایک بن چکا تھا کیونکہ پاکستان عوامی تحریک کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے اس کیس کو سوشل میڈیا پہ اس بھرپور طریقے سے اٹھایا کہ نہ صرف مین سٹریم میڈیا اسکو اٹھانے پہ مبجورہوگیا بلکہ بعد ازاں سی این این اور بی بی سی پہ بھی اس کیس کی گونج سنائی دی۔ اس پہ مستزاد یہ کہ اس واقعے کے خلاف عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکلی اور احتجاج کیا جس کے نتیجے میں پولیس نے مظاہرین پر گولی چلادی جس کے نتیجے میں دو افراد بھی جاں بحق ہوگئے تھے تو پھر اتنے ہائی پروفائل کیس میں ایسی عجلت کیوں؟

تیسری اہم بات، پاکسان کی تاریخ میں سائنسی شہادت پہ پہلی بار سزا سنائی گئی، آپکو یاد ہوگا چند ماہ قبل قندیل بلوچ قتل کیس میں مفتی عبدالقوی کا پولی گرافک ٹیسٹ مثبت آنے پر ثابت ہوا کہ مفتی موصوف جھوٹ بول رہےہیں اور مشکوک ہیں لیکن پھر بھی اس سائنسی شہادت کو ثبوت نہیں مانا گیا اور مفتی صاحب کو رہا کیا گیا اگرچہ ڈی این اے کیس ٹیسٹ سے یہ ثابت ہوگیا کہ عمران نے ہی زینب کی آبروریزی کی لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ کا یہ کہنا کہ زینب پہ تشدد کرنے والے ایک سے زیادہ افراد تھے اس کیس میں ڈارک ویب اور ریڈ روم کا ملوث ہونا بعید از قیاس نہیں، اور ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات پہ بنی جے آئی ٹی نے اپنی فائنڈنگ ابھی نہیں دی تو اس سے پہلے یہ کیس کیسے بند کیا جاسکتا ہے؟

اگر ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے ہیں اور عوام کو مطمئن کرنا ہے تو آئیے معاملات کو میڈیا پہ لائیے، گرفتاری کے بعد صرف ایک بار مختصر وقت کے لیے زینب کا قاتل میڈیا پہ آیا اور قتل سے انکار کیا، عمران کے وکیل نے بھی عدالت میں کہا کہ عمران قاتل نہیں قاتل اور ہیں، اب اگر اس نے زینب کے قتل کا اقرارکیا ہے تو پھانسی سے پہلے اسے میڈیا کے سامنے پیش کیجیئے موت سے پہلے سچ ضرور بولے گا اور بہت سے راز کھولے گا۔ اس کیس میں پراسیکیوشن کے 58 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے گئے لیکن وہ کون ہیں کسی کو علم نہیں، اگر وہ واقعی باقی سات بچیوں کے لواحقین ہیں تو میڈیا پہ لایئے، ورنہ سوالات تشنہ رہیں گے کہ ،

مقتدر حلقے کیوں اس معاملے کو جلد نمٹا کر اصل معاملات سے پردہ ہٹانے کا ھر امکان ختم کرنا چاہتے ہیں؟

کیا واقعی عمران کو مروا کر پورا گینگ بچ گیا؟

کیا یہ واقعی عدالتی انکاؤنٹر ہے؟

Munir Muhammad

Munir Muhammad

تحریر : منیر محمد