قصور (جیوڈیسک) ملزم عمران نے تمام بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا، درندگی کے بعد قتل کی گئی بچیوں میں زینب کے علاوہ کائنات، ایمان فاطمہ، نور فاطمہ، تہمینہ، عائشہ، عاصمہ اور لائبہ شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق زینب قتل کیس میں گرفتار ملزم عمران کا ڈی این اے آٹھ بچیوں کے ساتھ میچ کر گیا ہے۔ ملزم نے پہلی واردات جون 2015ء میں کی۔ زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی بچیوں کی عمریں 4 سے 9 سال کے درمیان تھیں۔
ذرائع کے مطابق ملزم تین سال سے ایک ہی محلے اور ایک ہی گھر میں رہائش پذیر تھا۔ ملزم نے تمام بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا۔ درندگی کے بعد قتل کی گئی بچیوں میں زینب کے علاوہ کائنات، ایمان فاطمہ، نور فاطمہ، تہمینہ، عائشہ، عاصمہ اور لائبہ شامل ہیں۔ ملزم عمران تمام بچیوں کو قتل کرنے کے بعد ملزم فرار بھی ہوتا رہا۔
تفصیلات کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ زینب قتل کیس میں عمران نامی شخص کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے جسے گزشتہ رات حراست میں لیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق نامعلوم مقام پر ملزم سے تفتیش کی جا رہی ہے، ملزم زینب کا محلہ دار ہے۔
جے آئی ٹی کے ذرائع کے مطابق زینب قتل کیس میں ملزم عمران سمیت 6 افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ مکمل کر لیا گیا ہے۔ ٹیسٹ کے بعد ملزم عمران کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ تمام ٹیسٹ جے آئی ٹی کے زیر نگرانی کیے گئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ زینب قتل کیس کا ایک ملزم وعدہ معاف گواہ بن گیا ہے۔ ملزم عمران کے چار ساتھیوں نے اسے روپوش ہونے میں مدد دی۔
پولیس نے ملزم کو پہلے بھی حراست میں لے کر پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا تھا۔ رہا ہونے کے بعد ملزم دوسرے شہر چلا گیا تھا، کلین شیو ہو کر دوبارہ قصور آیا۔ ملزم عمران کو ڈی پی او زاہد مروت کی ٹیم نے 20 جنوری کو گرفتار کیا تھا۔
دوسری جانب ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان نے بتایا تھا کہ عمران نامی شخص کو گرفتار کر کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے ہیں جس کی مزید تصدیق کے لیے 4 گھنٹے درکار ہیں۔
انہوں نے کہا ملزم عمران کے خلاف کچھ ٹیکنیکل شواہد ملے تھے، ابتدائی طور پر یہی ملزم لگتا ہے، تاہم مکمل تصدیق ڈی این اے رپورٹ کے بعد ہو گی۔ ترجمان پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ عمران نامی شخص روڈ کوٹ کا ہی رہنے والا ہے لیکن اس بات کی تصدیق نہیں کی ملزم زینب کا رشتہ دار ہے۔
ادھر زینب کے والد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران علاقے کا ہی رہائشی لگ رہا ہے لیکن ملزم کا ہماری فیملی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک کی پولیس تفتیش سے مطمئن ہوں، ملزم کی تصدیق ہونے پر سرعام پھانسی دی جائے۔
خیال رہے ننھی زینب 4 جنوری کو اغوا ہوئی اور 9 جنوری کو اس کی لاش گھر کے قریب کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔ واقعے کے خلاف قصور کے شہری سڑکوں پر آ گئے تھے۔ معاملہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر گرم ہوا تو ہر طرف سے آوازیں اٹھنے لگیں۔
زینب کی لاش ملنے کے بعد قصور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ اتوار 21 جنوری کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے ملزم کو گرفتار کرنے کیلئے 72 گھنٹے کی حتمی مہلت دی تھی۔
قصور پولیس کے مطابق بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کی تمام وارداتوں میں ایک ہی شخص ملوث ہے۔ پولیس افسر زاہد علی مروت نے بتایا تھا کہ مردہ اور زخمی حالت میں ملنے والی تمام بچیوں کے ڈی این اے کے نمونے یعنی وہ ایک ہی شخص کے ہیں۔ بچیوں کے اغوا اور ان سے جنسی زیادتی کے بعد قتل کی یہ وارداتیں زینب کی رہائش گاہ کے تقریباً تین مربع کلومیٹر کے علاقے میں ہوئی تھیں۔
پولیس کے مطابق قصور میں 2015ء سے لے کر اب تک چھوٹی بچیوں کو اغواء کے بعد زیادتی کر کے قتل کرنے کی 12 وارداتیں ہو چکی ہیں۔ ان میں سے 3 وارداتوں میں ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ 8 وارداتیں ایسی تھیں جن میں مجرم کو گرفتار نہیں کیا جا سکا تھا۔