لاہور (جیوڈیسک) انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے کوٹ لکھپت جیل میں ملزم عمران کو 4 بار سزائے موت کا حکم دے دیا۔ عدالت نے 10 لاکھ جرمانے کیساتھ عمر قید کی سزا بھی سنائی۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احتشام قادر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا عمران کو 7 اے ٹی اے کے تحت سزائیں دی گئیں ، عمران کو زینب کے ساتھ زیادتی ، قتل ، اغواء کرنے پر سزائے موت دی گئی ، بدفعلی پر عمر قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ، لاش کو گندگی کے ڈھیر پر پھینکنے پر عمران کو 7 سال قید جبکہ 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی گئی ۔ انہوں نے کہا ملزم عمران کو صفائی کا مکمل موقع دیا گیا ، مجرم کے پاس رحم کی اپیل کا حق حاصل ہے ، مجرم 15 روز میں فیصلے کیخلاف اپیل کر سکتا ہے ، تمام قانونی مراحل کے بعد سزا پر اطلاق ہو جائے گا ، عمران سے عدالت نے آخری وقت تک پوچھا تو اس نے اعتراف جرم کیا ، عمران کی زیادتی کی شکار 2 بچیاں زندہ ہیں اور 7 دنیا سے جا چکیں ہیں۔
زینب کی والدہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا فیصلے سے مطمئن نہیں، مجرم کو سر عام سزا دی جائے ، حکومت سے اپیل ہے کہ چھوٹی پچیوں کے تحفظ کے لیے قانون بنائیں۔ انہوں نے کہا جہاں سے زینب کو اغوا کیا گیا اسی جگہ پر اسے سزا دی جائے ، عمران صرف زینب کا نہیں بلکہ دیگر بچیوں کا بھی قاتل ہے۔ زینب کے چچا نے کہا زینب کے والد سے بات ہوئی ہے وہ فیصلے سے مطمئن ہیں ، سرعام پھانسی کا مطالبہ جائز ہے ، آئین میں ترمیم کر کے مجرم کو سرعام سزا دی جائے۔
ملزم عمران نے جرم کا اعتراف کر کے اپنا دفاع کے لیے کسی بھی قسم کا ثبوت پیش کرنے سے انکار کیا۔ ملزم عمران نے اپنے اعترافی بیان میں کہا ننھی بچیوں پر بہت ظلم کیا میں معافی کے لائق بھی نہیں، مجھے جتنی سزا دی جائے اتنی ہی کم ہے ، کسی قسم کی قانونی مدد نہیں چاہیے۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کم وقت میں ننھی زینب کے قاتل عمران کا ٹرائل مکمل ہوا۔ 8 کمسن بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ملزم کا 4 روز یعنی 96 گھنٹوں میں ٹرائل ہوا۔ پہلی مرتبہ سائنٹیفک ثبوتوں کو شہادت کے طور پر عدالت میں پیش کیا گیا، 12 فروری کو فرد جرم عائد کی گئی، ملزم عمران کمرہ عدالت میں روتا رہا۔ اس سے قبل آج تک انسداد دہشت گردی ایکٹ کی روح کے مطابق کسی بھی کیس کا فیصلہ نہیں ہوا۔
خیال رہے 4 جنوری 2018 کو شام 7 بجے کے قریب زینب اپنی خالہ کے گھر قرآن پاک کی تعلیم کے لئے گئی اور راستے سے اغوا کر لی گئی۔ 4 جنوری ہی کی شام تھانہ اے ڈویژن میں اغوا کا مقدمہ درج ہوا۔ اغواء کے واقعے کی پہلی سی سی ٹی وی 7 جنوری کو منظر عام پر آئی۔ 9 جنوری 2018 کو ساڑھے گیارہ بجے کے قریب گھر کے پاس کچرا کنڈی سے زینب کی لاش مل گئی۔ 9 جنوری کی شام کو اہل علاقہ (ماں باپ کے علاوہ)، رشتہ دار اور سول سوسائٹی اراکین نے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ 10 جنوری کو احتجاج کرنے والوں پر تشدد ہوا، مظاہرین نے مختلف سرکاری عمارتوں پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کے نتیجے میں دو مظاہرین محمد علی اور شعیب جان بحق ہو گئے۔
زینب کے والدین 10 جنوری کی شام عمرہ ادائیگی کے بعد حجاز مقدس سے وطن واپس پہنچے۔ 10 جنوری کو کمسن زینب کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ 11 جنوری کو ڈی پی او قصور ذوالفقار احمد کو او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ 1150 لوگوں کے ڈی این اے حاصل کئے گئے۔ 13 جنوری کو واقعے کی دوسری سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی۔ 14 فروری کو ملزم عمران بھی ڈی این اے کروانے کے لئے لایا گیا جو دل میں تکلیف کا بہانہ بنا کر ہسپتال سے چلا گیا۔ 19 جنوری کو دوبارہ ڈی این اے ٹسٹ کیا گیا، 8 مقامات جہاں سے بچیوں کی لاشیں ملیں تھی ان علاقوں کی جیو فینسنگ کی گئی۔
ملزم عمران کو 20 جنوری کو دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔ 22 جنوری کو علی الصبح عمران کے اہل خانہ کو رینجرز اہلکاروں نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ 23 جنوری 2018 کو وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والدین کے ہمراہ لاہور میں پریس کانفرنس میں ملزم عمران کو پکڑنے والی ٹیم کو شاباش دی۔