تحریر: حبیب اللہ سلفی بھارت نے ممبئی حملوں کے مبینہ ملزم ذکی الرحمن لکھوی کی رہائی کے حوالہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کمیٹی کو ایک خط لکھا ہے اور اس معاملہ کو پاکستان کے سامنے اٹھاتے ہوئے مداخلت کی اپیل کی ہے جس پر یو این کی سلامتی کمیٹی نے ہندوستان کو اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ذکی الرحمن کی رہائی کا مسئلہ آئندہ اجلاس میں اٹھائے گی۔ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق یہ خط بھارت کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب اشوکے مکھرجی نے اقوام متحدہ کی پابندیوں سے متعلق کمیٹی کے سربراہ جم میکلے کو تحریر کیا ہے جس میں لکھوی کی ضمانت کو اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1267 کی خلاف ورزی قرار دے کر مداخلت کی اپیل کی گئی ہے۔ ادھر دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے بھارت سرکار کی جانب سے یو این کی سلامتی کمیٹی کو لکھے گئے خط پر ردعمل کا اظہا رکرتے ہوئے کہاہے کہ کوئی بھی ملک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مذکورہ بالا ذیلی کمیٹی سے رجوع کر سکتا ہے
تاہم سلامتی کونسل کی کمیٹی القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں پر جو پابندیاں عائد کر سکتی ہے ان میں سفری پابندیاں اور اثاثے منجمدکرنا شامل ہے جبکہ یہ لازم نہیں کہ سلامتی کونسل کی کمیٹی کی پابندیوں کی زد میں آنے والے افراد کو حراست میں رکھا جائے۔ ذکی الرحمن لکھوی کو جب سے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر رہا کیاگیا ہے بھارتی حکومت اور اس کے متعصب میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔کبھی راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں اس مسئلہ کو پیش کر کے دشنام طرازیاں کی جاتی ہیں ‘ امریکہ سے مداخلت کی اپیلیں کی جاتی ہیں تو کبھی پاکستان سے فرمائشیں کی جاتی ہیں کہ وہ ممبئی حملوں کے مبینہ ملزم کو ہر صورت جیل میں قید رکھنا یقینی بنائے۔ 26 نومبر 2008ء کوبھارتی شہرممبئی میںابھی حملے جاری تھے کہ بھارتی میڈیا اور ہندوستانی حکمرانوںنے حسب سابق اپنی توپوں کے دہانوں کارخ پاکستان کی طرف موڑ دیا
وطن عزیز کے عسکری اداروں،کشمیری جہادی تنظیم لشکر طیبہ اورجماعةالدعوة کو ممبئی حملوں میںملوث قراردینا شروع کردیاتھا۔سب کی زبانیں پاکستان اور یہاں کی مذہبی جماعتوں کے خلاف زہراگل رہی تھیں جس پر اس وقت کے حکمران دبائو کا شکار ہوئے اور حافظ محمد سعید، ذکی الرحمن لکھوی اور دیگر سرکردہ رہنمائوں کو نظر بند اور جیلوں میں قید کر دیا گیا۔ اس دوران پاکستان کی آزاد عدالتوںنے جرأتمندانہ فیصلے کئے اوربھارتی میڈیا کی رپورٹوں کو ثبوت تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے حافظ محمد سعید اور دیگر رہنمائوں کی نظر بندیاںختم کر دی گئیں تاہم دوسری جانب ذکی الرحمن لکھوی مسلسل اڈیالہ جیل میں قید رہے اور ان پر کیس چلتا رہا۔ وہ چھ سال سے زائد عرصہ جیل میں رہے۔
India
ہندوستانی حکومت بار بار یہ کہتی رہی کہ وہ پاکستان کو اس حوالہ سے ثبوت فراہم کرے گی۔اس دوران سینکڑوں صفحات پر مبنی کئی ڈوزیئرزبھی بھجوائے گئے جن میں یہ مضحکہ خیز دعوے کئے گئے کہ حملہ آوروں کے پاس سے جو صابن ، کپڑے، شیونگ کریم، منجن اور پستول وغیرہ برآمد ہوئے ہیں ان پر پاکستانی کمپنیوں کی مہریں لگی ہوئی ہیںاس لئے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ حملہ آور پاکستان سے ہی آئے تھے۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے بھارت کے فراہم کردہ یہ تمام ڈوزیئرز عدالتوں میں پیش کئے جاتے رہے ہیںلیکن ان مضحکہ خیز باتوں کو جب خود بھارتی قانون دان ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں تو پاکستان کی آزاد عدالتیں کیسے تسلیم کر سکتی ہیں؟ اسی طرح اجمل قصاب کا بھی ممبئی حملوں کے مبینہ ملزم سے کوئی تعلق ثابت نہیں کیاجاسکایہی وجہ ہے کہ 18دسمبر 2014ء کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کوثر عباس زیدی نے عدالت میں پیش کردہ تمام مواد کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد ذکی الرحمن کی ضمانت منظور کرنے کا فیصلہ سنادیا۔
اس فیصلہ کا آنا تھا کہ پورے بھارت میں صف ماتم بچھ گئی اور بھارتی میڈیا نے طوفان بدتمیزی برپا کر دیاجبکہ پاکستانی حکومت نے اگلے ہی دن نقص امن کا کہہ کر انہیں ایک ماہ کیلئے اڈیالہ جیل میں ہی نظر بند کر دیا گیا۔اس دوران لکھوی کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو جسٹس نور الحق این قریشی نے نظربندی کے احکامات معطل کر دیے اور فوری طور پر ان کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیاتاہم بھارتی شورشرابہ پر ان کے خلاف ایک شخص کے اغواء کا بے بنیاد مقدمہ بنادیا گیا اور نقص امن کے بہانے مسلسل تین ماہ تک ان کی نظربندی میں توسیع کی جاتی رہی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 13مارچ 2015ء کو ایک مرتبہ پھرلکھوی کی نظربندی کو سراسر غیر قانونی قرار دے دیا۔اس فیصلہ کے بعد بھی بھارت سرکار نے سخت شورشرابہ کیا تو پنجاب حکومت کی جانب سے14مارچ کو اوکاڑہ سے ان کی ایک ماہ کی نظربندی کا چوتھی مرتبہ حکم نامہ جاری کر دیا گیا
جس پر ان کے وکیل راجہ رضوان عباسی ایڈووکیٹ نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو جسٹس انوار الحق نے دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے سوال کیا کہ محکمہ داخلہ پنجاب بتائے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ذکی الرحمن لکھوی کی ضمانت اور رہائی کا حکم جاری ہونے کے باوجود کس قانون کے تحت محکمہ داخلہ پنجاب نے ان کی چوتھی مرتبہ نظر بندی کا حکم نامہ جاری کیا ہے؟اور یہ کہ کسی شخص کو نوے دن سے زیادہ ریویو بورڈ کی اجازت کے بغیر کس طرح نظربندرکھا جاسکتا ہے ؟۔یہ ایسے سوالات تھے جن کاسرکاری وکلاء کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔یوں لاہور ہائی کورٹ نے بھی ذکی لکھوی کی ضمانت پر رہائی کے احکامات جاری کر دیے جس پر حکومت کو انہیں اڈیالہ جیل سے رہا کر نا پڑا۔ فاضل عدالت کے اس فیصلہ کے بعد سے بھارتی میڈیا اور حکومتی ذمہ داران مسلسل پاکستانی عدالتوں کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے ہیں۔
Mumbai Attack
بھارت سرکار کی جانب سے ممبئی حملوں کے مبینہ ملزم کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کمیٹی کو خط کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے۔ اس خط میں اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ جب ملزم کے اثاثے منجمند ہیں تو وہ ضمانت کی رقم کیسے ادا کرسکتا ہے اور اس کی رہائی کیونکر ہو گئی؟ تو بھارت سرکار کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ عدالتی فیصلہ کے بعد جب کسی شخص کی ضمانت دی جاتی ہے تو رقم جمع نہیں کروائی جاتی بلکہ ضمانت دینے والا شخص مچلکے جمع کرواتے ہوئے یہ یقین دہانی کرواتا ہے کہ عدالت جب مذکورہ شخص کو بلائے گی تو وہ ضرور پیش ہو گا۔ اسی طرح بھارت اقوام متحدہ کو خط تو لکھ رہا ہے لیکن اسے دنیا کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ وہ اب تک خوداس کی قراردادوں پر کتنا عمل کر رہا ہے؟۔ مسئلہ کشمیر کوجواہر لال نہرو اقوام متحدہ لیکر گیا۔ اس حوالہ سے اب تک چھبیس قراردادیں منظور کی جاچکی ہیں مگر بھارتی ہٹ دھرمی کی انتہا ہے کہ وہ ان پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ جب بھارت’ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کر رہا تو اسے وہاں کوئی نیا مسئلہ لیجانے کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ بہرحال بھارت سرکار کی جانب سے یو این کی جس کمیٹی کو خط لکھا گیا ہے وہ صرف القاعدہ اور طالبان کے حوالہ سے ہے اور یہ بات عدالتوں میں واضح طور پر تسلیم کی جاچکی ہے کہ جن شخصیا ت پر ممبئی حملوں کے الزامات لگائے جاتے ہیں ان کااس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ویسے بھی اقوام متحدہ کی مذکورہ کمیٹی کی جانب سے اگر کسی کا القاعدہ سے تعلق ہو تو اس پر تین قسم کی پابندیاں لگائی جاتی ہیں جن میں سفری پابندیاں، اسلحہ کی نقل و حمل اور بینک اکائونٹ کھلوانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل کی کمیٹی کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی آزاد ملک میں عدالتوں کے فیصلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی شہری کو نظربند یا جیل میں رکھنے کا کہہ سکے ۔اس لئے اگر یہ کہاجائے کہ بھارت کا اقوام متحدہ کو خط لکھنا ہمارے عدالتی عمل میں کھلی مداخلت کرتے ہوئے مقدمہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے تویہ غلط نہیں ہو گاکیونکہ ذکی لکھوی صرف ضمانت پر رہا ہوئے ہیں’ ان کے خلاف ممبئی حملوں کا مقدمہ تاحال زیر سماعت ہے۔اس وقت اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت ممبئی حملوں کے جھوٹے اور بے بنیاد مقدمہ کے حوالہ سے اپنی شکست تسلیم کر چکا ہے۔
Pakistan
اسے یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ وہ نا تو پہلے ذکی الرحمن لکھوی یا کسی اور پرممبئی حملوں کا الزام ثابت کر سکا ہے اور ناآئندہ کر سکے گا اس لئے وہ پاکستان کو دبائو میں لانے کیلئے مختلف حربے اختیار کر رہا ہے جس کی کوئی آئینی، قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔ ممبئی حملوں سے متعلق کیس میں پاکستانی عدالت 50گواہوں کے بیانات قلمبندکرچکی ہے اوربھارت سے 10ڈوزئیرز کاتبادلہ کیا جاچکا ہے یعنی ہندوستان سے مکمل تعاون کیا جاتا رہا ہے۔ اگربغیر کسی جرم کے ذکی الرحمن لکھوی اور ان کے ساتھیوں کوکئی برسوں تک جیلوں میں ڈالے رکھنے اور اتنا کچھ کرنے کے باوجود اب بھی بھارت سرکار ہماری آزاد عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے تو حکومت کو بھی اس کے نام نہاد احتجاج اور پروپیگنڈہ کو کسی خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔