اسلام آباد (جیوڈیسک) پیپلز پارٹی کے صدر آصف زرداری کی نااہلی کے لیے دائر تحریک انصاف کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سیاسی مقدمات عدالت میں کیوں لے آتے ہیں، آپ کا متعلقہ فورم الیکشن کمیشن بنتا ہے، سیاسی لڑائی سیاسی فورم اور پارلیمنٹ میں لڑنی چاہیے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار اور خرم شیر زمان کی جانب سے آصف زرداری کی بطور رکن قومی اسمبلی اور پارٹی سربراہ نااہلی کی درخواست پر سماعت کی۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزاروں کو کہا کہ عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا کہ یہ کیس عوامی نوعیت کا ہے اور عدالت کو اس پر بھی مطمئن کریں کہ اسے ترجیحی بنیادوں پر کیوں سنیں۔
وکیل عثمان ڈار نے مؤقف اختیار کیا یہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ڈس کوالیفیکیشن کا کیس ہے جو تصدیق شدہ دستاویزات کی بنیاد پر دائر کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اس پر کہا آپ تفتیشی اداروں سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں، آپ کا متعلقہ فورم الیکشن کمیشن بنتا ہے، آپ سیاسی مقدمات عدالت میں کیوں لے آتے ہیں، سیاسی لڑائی سیاسی فورم اور پارلیمنٹ میں لڑنی چاہیے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست گزار کے وکیل کو کہا آپ جانتے ہیں اس عدالت کے سامنے کتنے مقدمات زیر التوا ہیں، ہم بے شمار زیر التوا کیسز چھوڑ کر یہ سیاسی کیس کیوں سنیں؟، بے شمار لوگ جیلوں میں ہیں ہم نے ان کیسز کو پہلے دیکھنا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے یہ وقت ہے کہ پارلیمنٹ کو مضبوط کیا جائے اور پارلیمنٹ کو چاہیے اس معاملے کو دیکھنے کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دے۔
وکیل عثمان ڈار نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کے لیے الیکشن کمیشن متعلقہ فورم نہیں ہے، سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ اس معاملے میں الیکشن کمیشن مجاز نہیں۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آصف علی زرداری نے اپنے اثاثے چھپائے اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے، وہ رکن اسمبلی بننے کے اہل نہیں اس لیے انہیں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔