نواز شریف صاحب کوآف شور کمپنیوں کے مقدمے میں ملک کی اعلی عدالت نے تا حیات سیاست سے نا اہل قرار دیا تھا ۔ کرپشن کے مقدمے میں نواز شریف، ان کی بیٹی اور داماد جیل گئے تھے۔ نواز شریف نے احتجاجی جلسوں میں شہروں شہر کہا تھا کہ مجھے کیوں نکالا؟۔ کھل کر ملک کی فوج اور عدلیہ کو حدف کا نشانہ بناتے رہے۔اس کے ساتھ ان کے وزیروں مشیروں کی پوری ٹیم نوازشریف کا بیانیہ دھراتے رہے۔ کچھ نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے سزا بھی پائی اور کچھ معافی مانگ کر گلو خلاس ہوئے۔ نواز شریف نے ملک سے وفاداری کے حلف کا بھی پاس نہیں رکھا۔ملکی رازکھلے عام بیان کیے۔ اس کو حال ہی میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت انصاف میں بھی استعمال کیا۔ غدار وطن شیخ مجیب کا حوالہ دے کر کھل کہا کہ مجھے اقتدار سے علیحدہ کیا گیا توملک بھی نہیں رہے گا۔ پھر نواز شریف اپنا ملک دشمن بیانیہ جاری رکھنے کے بجائے اچانک خاموش ہو گئے۔ان کی ضمانتیں منظور ہونے لگیں۔ جبکہ موجودہ حکمران جو کرپشن کے خلاف آواز اور ملک میں اقبال کے خواب اور قائد اعظم کے وژن کے مطابق پاکستان میں مدینہ کی فلاحی ریاسے کے وعدے پر الیکشن جیت کر آیا تھا، کہتا رہا نہ ڈیل ہو گی نہ ڈھیل اور اب تک یہی کہہ رہاہے ۔ دکھوں کی ماری پاکستانی عوام یہ سمجھتی رہی کہ ان کے دکھوں کا مدوا پورا ہونے والا ہے۔
ملک سے لوٹی ہوئی ان کے خون پسینے کی کمائی اب واپس ملک کے خزانے میں جمع ہو گی اور ملک سے غربت اور مہنگائی ختم ہو گی۔ ان کو مناسب روزگار ملے گا۔ ملک خوش حال ہو جائے گا۔پھر نواز شریف کی خاموشی پر میڈیا میں خبریں اور کالم چھپنے لگے تجزیے ہونے لگے کہ خاموش ڈیل یا ڈھیل ہو گئی ہے۔ ان حالات میںپاکستان کے عوام اِس فکر میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ کیا مقتدر حلقوں نے ملک سے لوٹی ہوئی کرپشن کی رقم ملک میں واپس لانے اور غریب عوام کے خزانے میں جمع کرنے کے وعدے سے روجع کر لیا ہے۔ کیا پھر ملک اور قوم کے بڑے فاہدے کے نام نہاد فلسفے کو مانتے ہوئے ملک سے دولت لوٹنے والوں اور پیسہ باہر منتقل کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دینے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ کیا اس ممکنہ ڈیل یا ڈھیل کو پاکستان کی عوام سچ سمجھ کر اپنے مقدر پر رُویں لیں اور خاموش ہو جائیں یا یہ کیا ہے؟
مقتدر حلقوں کی اس ممکنہ روش کو دیکھ کردوسری طرف زردادری صاحب جن پر منی لانڈرنگ کے مقدمے درج ہیں وہ عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ زرداری نے بھی نواز شریف والے بیانیہ پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ بھی سندھ کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔شہروں شہر کہتے پھرتے ہیں کہ دوبارا بنگلہ دیش نہیں بننے دیں گے۔ اپنے حقوق کے لیے لڑیں گے۔ اپنے احتجاجی جلسوں میںفوج ، عدلیہ اور ملک کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ جمہوریت خطرے میں کا راگ الاپ رہے ہیں۔
صاحبو!یہ روز روشن کی طرح ہر پاکستانی جانتا ہے کہ ملک ِپاکستان کو لوگوں نے اقتدار میں رہ کر خوب لوٹا ہے۔ آمدنی سے زیادہ کے اثاثے کا فلسفہ توسب جانتے ہیں۔نیب کا قانون بھی یہی کہتا ہے کہ اگر آمدنی سے اثاثے زیادہ ہے تو اُس شخص کو ثابت کرنا ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا؟ جس پر الزام ہے اُس شخص نے بتاناہوتا ہے کر میں نے فلاں کاروبار کیا یا مجھے یہ پیسہ خاندانی وراثت سے ملا ہے۔ تو معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔مگر عوام دیکھتے ہیں کہ جب کسی پر کرپشن کا الزام لگتا ہے تو سیاست دان کہتے ہیںکہ جمہورت خطرے میں ہو گئی ہے۔ فلاں شخص تو تین دفعہ ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہے،فلاں تو شخص تو پاکستان کا صابق صدر اور فلاں شخص توپارلیمنٹ کا اسپیکر ہے۔ہاں بھائی یہ بل لکل سچ ہے مگر اس نے اقتدار میں رہ کر ملک کے غریب عوام کا خزانہ لوٹا ہے۔ اس پر کرپشن کا الزام ہے۔ اسے ملک کی عدالت میں اپنے بے گناہی ثابت کرنا ہے۔
عوام دیکھتے رہے ہیں اور اخبارات بھی لکھتے رہے ہیں کہ ایک خاندان سیاست میں آنے سے پہلے کسی سینما کے ٹکٹ بلیک میں فروخت کیا کرتا تھا ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام کرنے والا خاندان کوئی بڑا سرمایا دار تو نہیں ہو سکتا؟ جبکہ سیاست میں آنے کے بعد ناقابل یقین اثاثوں کا مالک بن گیا ہے۔ دوسرے شخص کے والد کی ٹائیٹل اسٹوری اخبارات میں شایع ہوئی تھی کہ اُس کے سیاست میں آنے سے قبل اُس کے والد ایک ہتھوڑا لوہے کو موڑنے کے لیے مار رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ لوہے پر ہتھوڑا مارنے والے کسی بھی شخص کا بیٹا، بقول حاضر حکمران ١٢ فیکٹریوں کا مالک نہیں ہو سکتا؟ اس کے علاوہ دونوں حکمرانوں کے بیرون ملک اثاثوں کی بھی نشان دہی ہو چکی ہے۔پھر دونوںخاندانوں کی اولاد بیرون ملک رہتی ہے، پڑھتی ہے اور کاردوبار کرتی ہے اور ان کا علاج بھی ملک کے ہسپتالوں میں نہیں باہر ملکوں میں ہوتا ہے۔ کیا سیاستدانوں نے سیاست کو انڈسٹری نہیں بنا رکھا ہے ؟کہ الیکشن میں کروڑ لگائو، الیکشن جیتنے کے بعد اقتدرار میں آئو۔ پھر اقتدار کی آڑ میں اربوں کمائو۔ بڑی دوسیاسی پارٹیوں کو ایک طرف رکھ کر اگرتیسری اور درمیانی درجہ کی قیادت کا دعویٰ کرنے والی لسانی اور علاقائی دہشت گرد تنظیم ایم کیو ایم کا لندن مقیم سابق سربراہ کو دیکھیں تو کروڑوں کی جائیداد یںاور اس کی پارٹی کے ممبران جواسکوٹر چلانے والے تھے۔
پیجاروں گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔غریب بستیوں میں رہتے تھے اب ملک کے پوش علاقوں میں بڑھی بڑھی کوٹھیوں میں رہا ئش رکھتے ہیں۔یہی حال دوسری سیاسی، مذہبی اور قوم پرست پارٹیوں کا ہے۔ پاکستان میں صرف ایک جماعت اسلامی ہے جوکرپشن سے پاک ہے۔ اس کی گواہی سپریم کورٹ کے معزز جج صاحب نے اپنے ریمارکس میں دیے تھے کہ اگر پاکستان کے آئین کی دفعہ ٦٢۔٦٣ پر سیاست دانوںکر پرکھا جائے تو صرف جماعت اسلامی کا امیر ہی بچ سکتا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے بانی حضرت قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کی محافظ ہے۔پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے اور غیر مورثی سیاسی دینی پارٹی ہے۔
اس سے قبل مقتدر حلقوں نے ملک کے غدار شیخ مجیب کو بھی ڈھیل دی تھی۔ وہ اس طرح کہ بانی پاکستان کے وژن اور پاکستان کی اسلامی اساس کے خلاف قومیت کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے کرشیخ مجیب کو کھلی چھٹی دی گئی تھی۔ شیخ مجیب نے بنگائی قومیت کوپھیلا کر ملک میں مار دھاڑ کے ذریعے الیکشن جیتا تھا۔ کیا قوم پرستوں اور سیکولر حضرات کے علاوہ کوئی ایسے الیکشن کو منصفانہ کہہ سکتا جو اس ملک کی اساس کی مخالفت میں لڑا جائے۔کیا کوئی اُس وقت کسی کیمونسٹ ملک میں سرمایا دارانہ نظام کی مہم چلا کر الیکشن لڑ سکتا تھا؟ اسی طرح سرمایادارانہ نظام والے ملک میں کوئی کیمونسٹ نظریات کے پرچار پر الیکشن میں حصہ لے سکتاتھا؟ پاکستان اسلام کے نام سے بنا ہے۔ اسلام نے قومیتوں کی مخالفت کی ہے ۔ سب مسلمان ایک قوم ہیں۔ہاں قرآن کے مطابق قومیں صرف پہچان کے لیے ہیں۔اسی طرح مہاجر قومیت کی ڈگھر پر چل کر غدار وطن الطاف حسین نے ایک عرصہ تک کراچی میں شیطانی کھیل کھیلا۔ ہزاروںمسلمانوںکو شہید کیا۔ پاکستانی معیشت کھربوں کا نقصان پہنچایا۔
اگر یہ صحیح ہے کہ مقتدر حلقوں نے ملک کی اعلیٰ عدالت سے تا حیات سیاست میں نااہل ہونے والے اور کرپشن کے الزام میں سزا یافتہ نواز شریف کو ڈیل یا ڈھیل دی ہے تو یہ تاریخی غلطی ہو گی۔ تاریخ اور ملک کے دکھی عوام اس کو کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ پھر کیا نوازشریف والی ڈگھر پر چلنے والے زرداری کو بھی ڈیل یا ڈھیل دینی پڑے گی؟ زرداری ملک میں سندھ کارڈ استعمال کر کے نفرت پھیلا رہا ہے۔ اس وقت ملک میں کرپشن کے خلاف نفرت کا ماحول بنا ہوا ہے۔
نیب کو چاہیے کہ جس جس نے ملک کو لوٹا ہے چاہے وہ حکومتی پارٹی میں،فوج میں ہو، عدلیہ میں ہو اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ قائم کیے جائیں۔ جس پر بھی کرپشن ثابت ہو اس سے کرپشن کا پیسا واپس لے پاکستان کے غریب عوام کے خزانے میں داخل کیا جائے۔ ان کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ میں ٤٣٦ آف شور کمپنیوں والوں کے خلاف مقدمہ قائم کیا ہوا ہے۔ ان کے خلاف کورٹ کی کاروائی شروع کی جائے۔ اسی میں ملک کی بھلائی ہے اسی سے پاکستان ترقی کی منازل طے کرے گا۔ ملک کا خزانہ بھرا ہو اہوگا تو آئی ایم ایف کے پاس قرضہ کے لیے نہیں جانا پڑے گا،۔ فوج بھی توانا ہو گی اور ازلی دشمن بھارت کی گیڈر بھبکیوں کا جواب بھی دے سکے گی۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔