تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم آج اِس جدید ترین راکٹ سا ئنس اور اِس سے بھی کہیں زیادہ تیز رفتار ورلڈسمیت پاکستان کی پل پل کروٹ بدلتی سیاست میں سا نس لیتے لڑتے جھگڑتے اِنسا نوں کواِس مثل ” مطلب کے واسطے گدھے کو با پ بنا تے ہیں “کے معنی مطلب اچھی طرح اُس وقت لگ پتہ گئے ہیں جب پچھلے دِنوں عدالتوں سے نا اہل قرارد یئے گئے مسلم لیگ (ن) کے نو منتخب صدراور سا بق وزیراعظم محمد نوازشریف نے اپنے حق میں پارٹی صدارت سے روکنے کابل پارلیمنٹ سے کثرتِ را ئے سے مسترد کئے جا نے کے بعد باقاعدہ طور پر پہلی مرتبہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انتہا ئی معصو ما نہ اور بے بسی اور بیکسی کے عالمِ اضطرا ب میں دیدہ دانستہ شکوہ بھرے انداز سے یہ کہا کہ”پی سی او والے جج کسی کو کیسے صادق اور امین قراردے سکتے ہیں؟،عدلیہ کا دوہرا معیاررولزآف گیم ایک جیسے ہو نے چا ہئیں عمران ، جہا نگیرترین سے متعلق فیصلے نا جا نے کب آئیں گے؟ کبھی این آراو کیا نہ کریں گے،(جبکہ یہ حقیقت ہے کہ این آر اوسے پہلے یہ مستفید ہو چکے ہیں جب مشرف نے اِنہیں مُلک بدر کیا اور پھر واپسی کی راہ دکھا ئی تھی اَب یہ انکا ری ہیں تو سمجھ سے بالاتر ہے بہر کیف، آگے چلتے ہیںیہ کہتے ہیںکہ )میثاق جمہوریت پر قا ئم ہوں عدالتوں سے انصا ف کی اُمید نہیں، انصاف کے تقا ضوں سے مذاق بند ہونا چا ہئے،(اور اَب نوازشریف جی آپ مُلکی شاہراہوں اور عوامی بڑے چھوٹے اجتماعات میں عدالتوں اور معزز ججز کا جو مذاق بنا رہے ہیں یہ سب کیاہے؟
کیا آپ کو زیب دیتا ہے جو خودتین بار مُلک کے وزیراعظم کے عہدے پر فا ئز رہے ہیں افسوس کی بات ہے کہ کو ئی اور نہیں آپ جیسا شخص اعلی عدلیہ اور معزز ججز اور ایک آمر پرویز مشرف کے چکر میں ڈھکے چھپے الفا ظوں اور جملوں میں پا ک فوج کا بھی بات بات پر مذاق بنا رہا ہے جو کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے) عدالتوں سے نا اہل قراردیئے گئے شخص کو پا رٹی صدارت سے روکنے کا بل اسمبلی میں لا نا پیپلز پا رٹی کو کچھ زیب نہیں دیتا ہے اور ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی فاشٹ جما عت ہے، پی ٹی آئی جھوٹ ، بہتان ، الزام تراشی کی سیاست کرتی ہے جِسے جمہوریت چھو کر بھی نہیں گزری(جبکہ، آج بھی دنیا کو اچھی طرح یہ بھی یاد ہے کہ پی پی پی سے متعلق بھی کچھ عرصہ قبل تک نوازشریف کے خیالات ایسے ہی تھے، جب زرداری اور کچھ قومی اداروں میں ٹھنی ہو ئی تھی اور میاں صاحب،اُن اداروں کی آنکھ کے تارے اور یہ ادارے میاں صا حب کے ہا تھ کے چھالے بنے ہو ئے تھے) اَب چو نکہ حالات اور واقعات میا ں نوازشریف کے بر عکس ہیں تو یہ موقعہ غنیمت کا فا ئدہ اُٹھا کرایک طرف پی پی پی سے شکوہ کررہے ہیں مگر دوسری جا نب اِس سے اپنی بقا کے لئے مصلحتاََ جمہوریت کے واسطے ہی سہی ہا تھ ملا نے کی خوا ہش شدید کا اظہاربھی کررہے ہیں)مگر ساتھ ہی پریشان حال بیچا رے نوازشریف یہ بھی اپنی دانش سے کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ا ٓمروں کے کا لے قا نون کی حمایت بھی کی ہے اور اِنہیں پی پی پی کے اِس روکھے پھیکے اور اجنبیوں والے رویے پربھی بہت افسوس ہوا ہے۔
ہا ں البتہ ، اِس کے با وجود بھی اپنی نا اہلی پر بھولے بھالے بنے میاں محمد نوازشریف کی یہ بھی آخری دلی خوا ہش ہے کہ” میں ذاتی رنجشوں کی بنا پر نہیں بلکہ مُلک کے لئے آصف زرداری سے جمہوریت کو بچا نے مُلکی معیشت اور اقتصادیات کو سہارادینے کے لئے غیر مشروط ہا تھ ملا نے کو بھی تیار ہوں“یوں اچا نک نواز شریف کی ”مجھے کیو ں نکالا ؟کی ما لا چپتی زبان سے یہ الفاظ ”زرداری سے غیر مشروط ہا تھ ملا نے کو بھی تیار ہوں“ کیا نکلے ؟ گویا کہ اُدھر دنیا کوا س مثل ” مطلب کے واسطے گدھے کو با پ بنا تے ہیں “کے معنی مطلب بھی اچھی طرح سمجھ آگئے ہیں کہ آج کس طرح چاروں طرف سے حالات کے طوفان سے طما نچے کھا تے نوازشریف اپنی گردا ب میں پھنسی کشتی کو کنا رہ لگا نے کے خاطر حالتِ پریشا نی میں اکیلے نبرد آزما نہیں ہوسکتے ہیں سواپنے لئے اِن نا زک حالات اور لمحات میں اِنہوں نے زرداری سے ہاتھ ملا کراور مل کر حالات کا مقا بلہ کرنے کی دعوتِ خا ص و عا م دے دی ہے،اوراِس کے ساتھ ہی اَب یہ منہ پر چادر ڈال کراِس اُمید پر سو گئے ہیں کہ جب یہ سو کر بیدار ہو ںگے یا اُٹھیں گے تو زرداری اِن کے سرہا نے ایک ہا تھ میں دودھ سے بھرا ہواگلاس اوراپنا دوسرا ہاتھ دوستی کے لئے پھیلائے کھڑے ہوں گے۔
آج شا ئد مگر ایسا نہ ہو کیوں کہ نوازشریف یہ بھول گئے ہیں کہ اِن کے سا منے پہلے والا مفا ہمت اور مصالحت پسند ایک زرداری ہی نہیں بلکہ اِن کا اپنی ما ں شہید بے نظیر بھٹو سے سیاسی گُھٹی پی کر بڑا ہونے والااِن کا بیٹابلاول زرداری بھٹو بھی اِن سے چپکا ہوا ہے یعنی یہ کہ آج نوازشریف کو ما ضی کا مفا ہمت اور مصالحت پسند زداری سے ہا تھ ملا نے سے پہلے زرداری کے بظاہر معصوم اور بھولے بھالے نظر آنے والے بیٹے بلاول زرداری بھٹو کو بھی ٹافیاں دے کر پہلے اِسے بہلا نا پڑے گا توپھر زرداری بھی ممکن ہے کہ اپنی عادت کے ہا تھوں مجبور ہوجا ئیں اور یہ پھر آج اپنے سے زیادہ تیز سیاسی بچے بلاول زرداری بھٹو کو کچھ سمجھا ئیں کے بقول تمہاری مما شہید بینظیر بھٹو” سیاست کی بڑی سنجیدہ اور دُوررَس ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔
سیاست قوم کے وجود میںاِس کے احیا کی بنیاد ہوتی ہے“اور بیٹا اِسی طرح گو ئٹے کا بھی یہی کہنا ہے کہ ” سیاست اِنسان کی آسمانی سرگرمی ہے جس سے لاکھوں اِنسا نوں کی زندگیاں اور تقدیریں وابستہ ہو تی ہیں“آج اِس لئے ہمیں پریشان حال نوازشریف کی درخواست پر ضرور لبیک کہنا چا ہیئے چو نکہ اِس سے بھی انکار نہیں کہ بیشک یہ ہما رے اور ہم اِس کے لئے لا کھ بُرے ہیں مگر کیو نکہ آج اِس نے ہم سے مددما نگی ہے اور اپنی پریشا نی میں ہما رے سا منے اپنی اَنا کو خا ک میں ملاد یا ہے اور اپنی اکڑی ہو ئی گردن میں پڑاہوا اتفاق فا و ¿نڈری کا سریابھی نکال باہر پھینکا ہے اور اپنی ہما رے سا منے اکڑی ہوئی ناک مدد کے لئے رگڑی ہے اوراپنادامن پھیلا کرہم سے خلوص اور دوستی کی پھیک ما نگی ہے تو پھر یہ ہم سندھیوں کی روایت نہیںہے کہ ہم کسی مجبور اور بے کس اِنسا ن کی درخواست رد کردیں اور اِس کی مجبوری کا تما شہ بنا ئیں اور بیٹا ہما ری پاکستان پیپلز پارٹی کی تو ما ضی کی یہ خا ص روایت رہی ہے کہ اِس نے ہمیشہ (خا ص و عام )عوام خوا ہ کو ئی بھی ہوں سب کے ڈیوز دلائے ہیں اوراَب جس پر کچھ لوگوں نے ہمارے کچھ ظاہر اور باطن کاموں اور رویوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بھی شروع کردیا ہے کہ اَب پیپلز پا رٹی عوام کو ڈیو ز دلا نے کے بجا ئے ڈہز(ڈھس) پہنچا رہی ہے ایسے میں آج ہمیں ہر حال میں اِس عوا می سوچ کو بدلنا ہوگا اور یہ اِسی صورت میں ممکن ہے کہ آج ہم پریشا ن حال نوازشریف کی ظاہر اور باطن کسی بھی طور پر اِس کی مدد کریں اور اِسے سہارا دیں تا کہ اِس کی گرداب میں پھنسی کشتی کنا رے لگ جا ئے اور اِس کا اور ہمارا جمہوریت کے نام پہ دال دلیہ چلتا رہے ورنہ ؟ آنے والے طوفان کی خا موشی بتا رہی ہے کہ ہم دو نوں کے ہاتھ میں پریشا نی کا کشکول ہوگا اورحالات ہوں گے یہ ٹھیک ہے کہ کل جب ہم پر بھی بُرا وقت پڑاتھا تواِسی نوازشریف نے ہمیں حالات کا مقا بلہ کرنے کے لئے انتہا چھوڑدیا تھا اور اِن ہی عناصر کی گود میں بیٹھا تماشہ دیکھ رہاتھااور تا لیاں بجا رہا تھایہ اُس کا ظرف تھا اور آج یہ ہمارا اعلیٰ ظرف ہوگا کہ ہم یہ دنیا کو ثا بت کردیں کہ نوازشریف کی طرح کے ہی لوگ ہو تے ہیں جو ” مطلب کے واسطے گدھے کو با پ بنا تے ہیں “دراصل اچھے وقت میں وہ خود گد ھے ہو تے ہیں جو مطلبی سیاست میں باپ کو گدھا سمجھتے ہیں۔