تحریر : ایم آر ملک بھٹو کی پارٹی پر حادثاتی طور پر ناجائز قابض چھوٹے زرداری کی انسانیت کے قاتل برطانیہ کے شہری اور مودی کے کاروباری رفاقت داروں جن کی ملوں سے راء کے ایجنٹوں کی نشاندہی ڈاکٹر طاہرالقادری نے ثبوت دیکر کی کو محب وطن قرار دینے کی منطق کو محب وطن حلقے اب قصداًفراموش کرنے والے نہیں عوام مفاہمت کے سیاہ کاروں کے باری کے کھیل کو اب قبول نہیں کریں گے۔
چھوٹے زرداری نے محب وطن حلقوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ آپ چاہے جتنی حب الوطنی کی قربان گاہ پر اپنی جانوں کو نثار کریں ،ہم معاشی دہشت گردوں سے لیکر انسانی دہشت گردوں تک سہولت کاری کافریضہ ادا کرتے ر ہیں گے آپ کے نیشنل ایکشن پلان سے ہمیں کوئی سروکار نہیں سرے محل کی لوٹ مار سے لیکر مے فیئر فلیٹس کی کرپشن تک ہم اور ہمارا انکل مفادات کے رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں سرمائے کی منڈی میں ضمیر ،غیر ت اور حب الوطنی کی کوئی حیثیت نہیں ہوا کرتی انکل الطاف کا آلہ کار بن کر بے گناہ اور معصوم شہریوں کی لاشیں گرانے والوں کے مقدر میں اب عوام کی عدالت میں ذلت آمیز شکست کے سوا دوسرا کوئی آپشن نہیں بچا بھٹو کی پارٹی اب زرداری لیگ بن چکی ہے جس کی جعلی قیادت کے دائیں بائیں بھٹو کے ورکرز نہیں مفادات کی پچ پر دانہ چگنے والے فصلی بٹیرے اور چاپلوس ہاتھ باندھے کھڑے ہیں جن کی اپنی نہ کوئی رائے ہے اور نہ ضمیر نام کی کوئی چیز اُن کے اندر ہے۔
39 برس قبل فخر ایشیا کو تختہ دار پر لٹکا کر جن کے سیاسی باپ نے نظریاتی ورکروں کے ذہن پر ایک گہرا گھائو لگایا اُس سے آج بھی لہو کی بوندیں ٹپک رہی ہیں عمران کے کیمپ میں نظریاتی ورکروں کا جھمگٹا محض اس لئے نظر آتا ہے کہ نواب شاہ کے زرداری نے بھٹو ازم کا چہرہ مسخ کرکے اُن پر انتقاماً ایک وحشیانہ سول آمریت کی راہ ہموار کی ایسی جعلی قیادت کی طرف نظریاتی ورکروں کی واپسی کا رستہ مسدود ہو چکا ضلعی سطح پر انٹرا پارٹی الیکشن کے بجائے منظور نظر افراد کی سلیکشن ایک بار پھر کمزور تنظیمی ڈھانچے اور ٹھوس نظریاتی کیڈرز کی کمی کا فلک شگاف اعلان کر رہا ہے۔
سرکاری اپوزیشن اور ن لیگی گٹھ جوڑ کے مدمقابل عوامی بغاوت کا ریلا عمران کی قیادت میں اپنی منزل کی جانب رواں دواںہے سٹیٹس کو کے جمود ٹوٹنے کے خوف نے فضل الر حمان ،اسفند یار ولی ،رائے ونڈ کے شریفوں اور زرداری لیگ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا مگر ایک ذلت آمیزایکاان کے پروردہ نظام کو ٹوٹنے سے نہیں بچا سکتا سرمائے کے ڈوبتے ہوئے سفینے کو بھی اب یہ قوتیں سہارا نہیں دے پائیں گی ہر دور کا عروج و زوال افراد کی شناخت کو اُن کے شعور میں بدلتا ہے۔
Altaf Hussain
عوام سرحد پار چلنے والی مودی کی مکروہ اور بے ہودہ فلم سے شعوری طور پر آگاہ اور آشنا ہیں اس کو بنانے اور تشہیر کروانے کے پاگل پن کے پسِ پردہ پاکستانی چہروں کے نقاب بھی عوامی شعور نے اُتار پھینکے ہیں ریاست ایک ایسی نہج پر کھڑی ہے جہاں چاروں اور آواز سگاں کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا ہے ایوانوں میں بیٹھے چوہے بھی چیں چیں کے شور شرابے میں اپنی آواز ڈال رہے ہیں لیکن وطن ِ عزیز کی سالمیت کی ضامن افواجِ پاکستان پر ہرزہ سرائی کا یہ شور زیادہ عرصہ چلنے والا نہیں جب دھرتی کی بقا کیلئے نوجوان ،بوڑھے ،عورتیں تبدیلی اور انقلاب کی خاطر کسی تحریک میں اُترتے ہیں تو سماجی مرتبوں کے اثرات اُلٹ جاتے ہیں اور سٹیٹس کو کی قوتیں جب اپنے لوٹ مار کے سرمائے ،امارت اور ذاتی مفادات کے بل بوتے پر برتری کے گھمنڈ میں اپنی حیثیت اور شناخت کو آویزاں کرتی ہیں تو عوامی بہائو میں سب کچھ ذلت اور شرمساری بن کر بکھر جاتا ہے۔
ضیا ء الحق کی سیاسی اولاد کے ساتھ چاہے جتنے چھوٹے ،بڑے زرداری کھڑے ہوجائیں اب عوام کا شعور جاگ چکا ہے اوربھٹو کے وہ وارث جن کی پیٹھ پر خوں آشام آمریت کے کوڑوں کے نشان آج بھی بھٹوز کے ساتھ وفا کے جرم کے گواہ ہیں وہ کسی نواب شاہ کے بلوچ کے جھانسے میں آنے والے نہیں وہ ورکر گھائل اور ششدر ہو کر عمران کے ساتھ جاکھڑا ہوا ہے بھٹو کی پھانسی کی رات سے لیکر آج تک اُس جیالے کے دل میں ضیاء باقیات کے خلاف بھڑکتی نفرت کی آگ کے شعلے سرد نہیں ہو سکے چھوٹے اور بڑے زرداری نے بھٹو کے اُس نظریاتی ورکر کے جذبات کو تاراج کیا ،اُسکے ارمانوں کا بلاد کار کیا ،اُس کے نظریات جو بھٹوز کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اُنہیں مسمار کیا وہ ایک ایک گھائو اور اپنے ہر زخم کا انتقام لینے عمران کی قیادت میں نکلا ہے اب زرداری نہیں عمران ہی اُس کی روایات کا چہرہ اور اُمیدوں کا مرکز ہے۔
زرداری کے بیٹے کو جو کسی طرح بھی بھٹو نہیں اب سمجھ لینا چاہیئے کہ ”ماضی کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہوتا ”جعلسازی سے اپنے نام کے ساتھ بھٹو کا لاحقہ لگا لینے سے کو ئی بھٹو نہیں بنتا چربہ سازی کا مقدر تاریخ کا کچرا دان ہوتا ہے احتساب کے خوف سے سٹیٹس کو کی قوتیں چاہے جتنے اتحاد تشکیل دے لیں اپنی لوٹ مار کی جمہوریت کی زنجیروں میں جن نوجوانوں ،بزرگوں ،خواتین کو اُنہوں نے جکڑ رکھا تھا اب اُن کے دلوں ،دماغوں ،روحوں ،احساس میں غم و غصے کا لاوا شدت سے سلگ اُٹھا ہے 30اکتوبر کو جب وہ پھٹے گا تو ایک ایک دھوکہ،غداری جو اُنہوں نے دو پارٹیوں کی جمہوریت سے کھایا ہے ایک ایک زخم جو دو پارٹیوں کے نظام نے اُن کو لگایا ہے یہ لاوا اب پھٹ کر ایک دیو ہیکل انتقام بننے والا ہے وقت دیکھے گا کہ کس کے زخموں پر کون ہنستا ہے؟