تحریر : مسز جمشید خاکوانی مک مکا کی سیاست زوروں پہ ہے سیانوں نے چار سال گذار لیے الیکشن نے تک کئی مفاہمتی کاروائیاں انجام تک پہنچ جائیں گی زرداری یاروں کے یار ہیں یا مک مکا کے استاد اس کا اندازہ ایک دو واقعات سے ہی لگایا جا سکتا ہے اس میں اربوں کی کرپشن والے کردار ملوث ہیں وہ رہائی کے بدلے کتنے ارب بگ باس کی نذر کریں گے اس میں شک و شبے کی کوئی گنجائش ہی نہیں جب ایوان صدر میں بسیرا تھا تو ایک بڑی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو اپنے ساتھ چار بندوں کا ایک وفد لے کر اپنا کوئی مسلہ حل کرانے ایوان صدر گئے ان کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا اذن باریابی مل گیا مسلہ حل ہوا کہ نہیں لیکن ایوان صدر سے واپسی کی دس لاکھ فیس طلب کی گئی انہوں نے کہا ہم تو ویلے ہی آ گئے ہیں موبائل آپ نے رکھ لیے ہم کہاں سے پیدا کریں دس لاکھ ؟تب انہیں موبائل مہیا کیا گیا کہ پیسے منگوا لیں ایوان صدر میں داخلہ مذاق تھوڑی ہے سو انہوں نے پیسے منگوا کر دیے اور رہائی پائی۔
کیا اب انکی رہائی مفت ہو گی؟ علی حیدر گیلانی کیسے اغوا ہوئے کیونکر چھوٹے ،صاحبزادہ ضیا بن ناصر نے آئی بی سی اردو کے لنک پر یہ مکمل روداد سینڈ کی ہے قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے شیئر کر رہی ہوں کہانی کی ابتدا ہوتی ہے مہمند ایجنسی سے فاٹا ایجنسیز میں پولیٹیکل ایجنٹ گورنر کا نمائندہ ہوتا ہے اور پوری ایجنسی کا سیاہ سفید کا مالک بھی کسی بھی ایجنسی سے منشیات ،اسلحہ اور دیگر اشیا کی سمگلنگ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پولیٹیکل ایجنٹ کی مدد و مرضی شامل نہ ہو ہر ایجنسی میں بڑے سمگلرز کا ایک غیر اعلانیہ ایک کنسور شیم بنا ہوتا ہے جس میں اہم معاملات طے ہوتے ہیں سرکاری حکام کو رشوت دینی ہو ،آپس کے جھگڑے طے کرنے ہوں یا دیگر جتنے بھی معاملات ہوں ان لوگوں نے طے کرنے ہوتے ہیں ایجنسی میں انکی تعداد تین سے پانچ ہوتی ہے ان کا فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے تمام سمگلرز نے اسے من و عن قبول کرنا ہوتا ہے ان کے ہر قسم کے تمام اخراجات بھی مل جل کر ادا کرتے ہیں اب آتے ہیں اصل کہانی کی طرف،مئی 2012کے تیسرے ہفتے تین قبائلی بڑی خاص سفارش پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے لیے پرائم منسٹر ہائوس پہنچے اس ملاقات کا مقصد مہمند ایجنسی میں اپنی مرضی کا پولیٹیکل ایجنٹ لگوانا تھا وزیر اعظم سے پچیس کروڑ میں سودا طے ہوتا ہے چار ہفتے کا ٹائم دیا جاتا ہے یاد رہے پولیٹیکل ایجنٹ کی تقرری گورنر نے کرنی ہوتی ہے اور گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے۔
گیلانی صاحب بگ باس کو بھی حصہ پہنچا چکے ہیں کہ 12جون 2012کو عدالتی حکم پر گیلانی صاحب کوپرائم منسٹر ہائوس سے گھر بھیج دیا جاتا ہے ان کے عہدے سے ہٹنے کے پانچویں دن وہ قبائلی ان کے گھر پہنچ جاتے ہیں عرض کرتے ہیں حضور آپ نے ہمارا کام نہیں کیا اب آپ پرائم منسٹر بھی نہیں رہے لہذا ہمارا پچیس کروڑ واپس کر دیں راجہ پرویز اشرف میری سفارش پر ہی پرائم منسٹر لگے ہیں اور میں پارٹی کا وائس چیئر مین بھی ہوں آپ لوگ ٹینشن نہ لیں آپ کا کام ہو جائے گا ،گیلانی صاحب نے یہ کہہ کر ان سے مہلت تو لے لی لیکن ایک ماہ گذرنے کے بعد بھی کام نہ ہو سکا نہ رقم واپس کی گئی تب وہ قبائلی ان کے گھر ملتان پہنچ گئے سابق وزیر اعظم سے ملاقات کی اور انہیں یاد دلایا حضور ہم نے اپنا بندہ لگوا لیا ہے کیونکہ ہمیں روزانہ کروڑوں کا نقصان ہو رہا تھا تو اب آپ ہماری رقم واپس کر دیں یہ سن کر گیلانی صاحب کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی کہنے لگے میرے پاس دو کروڑ ہے جو میرے حصے میں آیا تھا وہ میں واپس کر دیتا ہوں ویسے بھی اس طرح کے کاموں میں دی ہوئی رقوم واپس نہیں ہوتیں چلیں دو کروڑ دیں باقی بات پھر کر لیں گے گیلانی صاحب نے دو کروڑ لا کر دے دیے رقم قبضے میں لیتے ہی قبائلی وفد کا لیڈر بولا ہم نے پچیس کروڑ کی رقم آپ کو دی تھی اور ہم رقم آپ سے ہی لیں گے اب ہم نے واپس نہیں جانا ہم سند باد (ملتان کا مشہور ہوٹل) میں ٹھیرے ہوئے ہیں جب تک آپ رقم نہیں دیں گے ہمارا قیام اسی ہوٹل میں رہے گا اور اس کا خرچہ بھی آپ دیں گے۔
تین دن کی مہلت دے کر وہ قبائلی چلے گئے ان کے جانے کے بعد گیلانی صاحب نے ملتان پولیس میں اپنے ایک ممنون احسان کو فون کیا کہ سند باد کے فلاں فلاں روم میں تین قبائلی ٹھیرے ہوئے ہیں ان کو چرس سمگلنگ یا کسی ایسے کیس میں اندر کرا دو کہ دو چار سال باہر نہ آ سکیں پولیس نے ہوٹل انتظامیہ کو اعتماد میں لے کر چھاپہ مارا اور قبائلیوں کو چرس سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کر لیا معاملہ عدالت میں پہنچا اور مارچ 2013میں قبائلی باعزت بری ہو گئے رہائی ملتے ہی قبائلی پھر گیلانی ہائوس پہنچے اور عرض گذار ہوئے آپ کے دیے ہوئے دو کروڑ تو پولیس اور ججز وغیرہ پر خرچ ہو گئے اس لیے ہم باعزت بری ہو گئے ہیں اب ہمارا آپ کی طرف تیس کروڑ ہو گیا ہے پچیس کروڑ اصل رقم پانچ کروڑ جرمانہ اور مہلت صرف ایک ہفتہ ۔۔۔ گیلانی صاحب نے جواب دیا I m x prime minister اور تم میرے گھر میں بیٹھ کر مجھے ہی دھمکیاں دے رہے ہو شرافت سے چلے جائو ورنہ ساری عمر جیل میں سڑو گے یہ سنتے ہی قبائلی خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے۔
ٹھیک ڈیڈھ ماہ بعد 9مئی 2013 کو الیکشن کیمپین میں مصروف علی حیدر گیلانی کو ان کے دو گن مینوں کو قتل کر کے اغوا کر لیا گیا ایکس پرائم منسٹر کے بیٹے کا اغوا معمولی بات نہ تھی قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ایجنسیاں حرکت میں آ گئیں لیکن لگتا تھا علی حیدر کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا کچھ عرصے بعد گیلانی صاحب کو کال موصول ہوئی بچہ ہمارے پاس ہے تیس کروڑ دے کر بیٹا واپس لے جائیں دوسری طرف خفیہ ایجنسیز کو اپنے ذرائع سے کچھ معلومات مل گئیں کہ مغوی کو اکوڑہ خٹک کے قریب ایک مقام پر رکھا گیا ہے پولیس اور ایجنسیز فل ریڈ کی تیاریوں میں تھے یہاں پر گیلانی صاحب سے ایک فاش غلطی ہو گئی کہ ایک صحافی جو ان کا قریبی دوست ہونے کا دعوے دار تھا اسے اس چھاپے کے بارے میں آگاہ کر دیا اس صحافی نے شائد پہلے خبر نشر کرنے کے چکر میں اپنے چینل پر خبر لیک کر دی کہ مجرموں کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے چند گھنٹوں بعد اغوا کند گان افرا تفری میں علی حیدر کو لے کر افغانستان فرار ہو گئے جب چھاپہ مارا گیا تو علی حیدر افغانستان پہنچ چکا تھا افغانستان پہنچنے کے بعد گیلانی صاحب سے پھر رابطہ کیا گیا اب کے انہوں نے تیس کروڑ ادائیگی کی حامی بھر لی اکوڑہ ختک کی دو اہم ترین شخصیات کو بیچ میں ڈالا گیا تیس کروڑ کی ادائیگی کر دی گئی لیکن اکوڑہ ختک کے جس مقام پر چھاپہ مارا گیا تھا انہوں نے بھی پچیس کروڑ کا مطالبہ علی حیدر کے اغوا کنندگان سے کر دیا کیونکہ انہوں نے جو دو بندے اغوا کر کے رکھے ہوئے تھے وہ پولیس کے ہاتھ لگ گئے جن کا تاوان ان کے ورثا سے تیس کروڑ مانگا گیا تھا گیلانی کے لیت و لعل پر اغوا کنندگان نے علی حیدر کو افغانستان کے ایک گروپ کے ہاتھ پچیس کروڑ میں بیچ دیا گیلانی صاحب ایک بار تیس کروڑ اور دوسری بار پچیس کروڑ یعنی پچپن کروڑ دے چکے تھے لیکن اس لیت و لعل میں علی حیدر افغان گروپ کو بک چکا تھا اب افغان گروپ نے گیلانی صاحب سے رابطہ کیا اور اسی کروڑ تاوان طلب کیا۔
یعنی قیمت خرید پر پچیس کروڑ مزید منافع اس سودے پر کئی دن تک گفت و شنید جاری رہی گیلانی صاحب کا موقف تھا کہ میں پچیس کروڑ کا نادھندہ تھا جبکہ میں ستاون کروڑ بھر چکا ہوں اب مزید میرے پاس کچھ نہیں بالآخر گوجرانوالہ کی ایک پارٹی جو کہ گیلانی صاحب کے بہت بڑے سپورٹر اور ذاتی دوست بھی ہیں جن کے تمام اہم شہروں میں ستر سے زائد پیٹرول اسٹیشن ہیں اور کئی دیگر کاروبار بھی ہیں بلا شبہ وہ کھرب پتی پارٹی ہے انہوں نے گیلانی صاحب کو بتائے بنا اپنی طرف سے افغان گروپ کو پچیس کروڑ ادا کر دیے اور یوں علی حیدر گیلانی کے اغوا کنند گان نے علی حیدر کو اس مقام تک پہنچایا جہاں افغانی فورسز نے انہیں وصول کیا اور پاکستانی حکام تک اطلاع پہنچائی اس سارے واقعہ میں گیلانی صاحب ان کی فیملی اور دیگر رشتہ داروں نے جو تقریبا تین سال تک ذہنی اذیت اٹھائی وہ بیان سے باہر ہے ہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ علی حیدر جو کہ کینسر کے مریض بھی ہیں ایک دن بھی ان کے علاج معالجے اور خوراک میں کوتاہی نہیں کی گئی ۔۔مگر اس فیورٹ انکل کی سزا بے گناہ علی حیدر نے ضرور بھگتی ۔۔ تو قارئین آپ کیا سمجھتے ہیں ڈاکٹر عاصم ہوں شرجیل میمن ایان علی یا جو بھی اربوں کے نادھندہ ریلیز ہو رہے ہیں کیا بگ باس کو بھتہ دیے بغیر؟؟؟ گھاٹے میں رہی تو ریاست گھاٹے میں رہے پاکستانی عوام ،پاکستان میں قانون کی طاقت تو آپ نے دیکھ لی۔