کچھ لوگ اپنے شوق یا اپنے کام سے جنونیت کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں، وہ اس امر سے بھی ماورا ء ہوتے ہیں کہ دنیا انکے کام سے یا ان سے کتنی فیضیاب ہورہی ہے یا ہوسکتی۔ ہم نمو د و نمائش کے دور میں ہیں اور یہ دکھاوا بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اسکا سہرا سماجی ابلاغ کے ماتھے پر سجا ہوا ہے۔ سماجی ابلاغ کی بدولت تقریباً دنیا کا ہر فرد ہی شہرت سے لطف اندوز ہونے کیلئے کوشاں ہے۔کوئی شعر کہہ کر کوئی کچھ بنا کر تو کوئی کچھ بنا کر اپنی تشہیر اپنے ہی ہاتھ سے کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔لیکن آج بھی کچھ ایسے سادہ لوح لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے اپنے کام میں ہی مگن ہیں۔ہمارے ملک میں عزت افزائی کیلئے سڑکیں، گلیاں، پارک، عمارتیں وغیرہ نمایاں کارگردگی دیکھانے والوں کے نام سے منسوب کردی جاتی ہیں۔اسطرح سے کسی حد تک تو ان افراد کی پذیرائی ہوجاتی ہے اورعوام الناس کو کو شخصیت کے بارے میں جاننے کا بھی موقع ملتا ہے، ایسا ہی ایک بورڈہمارے علاقے میں لگا ہے جس پر زیب النساء زیبی روڈ (سڑک) لکھا ہوا ہے۔ حسب عادت ہم نے قابل احترام شخصیت زیب النساء زیبی صاحبہ کے کار ہائے نمایاں کے بارے میں جاننے کی کوششوں میں سرگرداں ہوگئے اور یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ہمارے ہی شہر میں ایک ایسا گوہر نایاب پوشیدہ ہے کہ جن کی ترویج و تشہیر ابلاغ نے شایہ شان نہیں کی یا پھر یہ محترمہ کی سادگی اور اپنے کام میں مگن رہنے کا بھی نتیجہ ہوسکتا ہے۔ آج اس مضمون کہ توسط سے کوشش کرینگے کہ زیبی صاحبہ سے بھرپور عام فہم جان پہچان کرائیں اور اپنی ادب اور ادبی لوگوں سے محبت کا کچھ حق ادا کر چلیں۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایسے لوگ بہت مشکل ہوتے ہیں اپنی شخصیت تک کسی کو رسائی دینے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے اگر آپ کسی ایک پہلو تک پہنچنے کی کوشش کرینگے تو یہ لوگ فوراً پہلو بدل لینگے اور آپ کے تسلسل کو بھٹکا دینگے۔جبکہ عملی طور پر یہ لکھنے لکھانے والے لوگ بہت سادہ ہوتے ہیں جیسا کہ دکھتے بھی ہیں۔ زیب النساء زیبی صاحبہ کی سب سے نمایاں خصوصیت کہ آپ نے روائیتی طرز کے ادب میں جدیدیت کی آمیزش بذریعہ اپنی فہم و فراست کی، اور یہ عمل اس وقت عمل میں آیا جب ادب سسک رہا تھا اور اس میں سوالنے نے ایک نئی روح پھونک دی۔
زیب النساء صاحبہ کے والدین دہلی (انڈیا) سے تعلق رکھتے تھے اور تقسیم ہند کے بعد کراچی میں مقیم ہوئے۔ آپ کی پیدائش بھی کراچی میں ہوئی سرکاری اسکول نشتر روڈ سے میٹرک کیا،محمد اقبال صاحب سے آپکا عقد سن ۷۷۹۱ میں ہو ا جوکہ خود بھی ایک سرکاری افسر تھے۔ گریجویشن شادی کے بعد مکمل کیا، جامعہ کراچی سے سیاسیات اور صحافت میں ماسٹرزکی ڈگریاں حاصل کیں، اس کے علاوہ دیگر علوم پر مختلف تعلمی درسگاہوں سے طالب علمی کا سلسلہ جاری رہا جو اس بات کی نمایاں عکاسی کرتا ہے کہ آپکوحصول علم سے کتنا لگاؤ رہا۔ آپ نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں سرکاری سطح بھی نبھائیں جس میں حکومت سندھشعبہ اطلاعات قابل ذکر ہے اور آپ بطور افسر ِ اطلاعات کے عہدے ے سے ریٹائر ہوئیں۔ لیکن اعزازی مصروفیات تاحال جاری و ساری ہیں جن میں درس و تدریس سے وابستگی قابل ذکر ہے، اورآپ علم کا سمندر ہیں بھلا سمندر بھی کوئی تھمتا ہے۔
جیسا کہ مذکورہ سطور میں زیب النساء زیبی صاحبہ کی ادب کی اصناف میں سوالنے نامی اختراع کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہوا تو انہوں نے پہلے تو انتہائی سادگی سے اللہ کی نعمت قرار دیا اور پھر بتایا کہ شاعری کی ستر اصناف پر لکھنے اور پڑھنے کے بعد اللہ نے یہ سوالنا ہمارے دل میں ڈال دیا کہ شاعری میں کوئی ایسی اختراع موجود نہیں تھی کہ جس میں تین سطور میں سوال کیا جائے اور جواب بھی بین السطور دیا جائے یعنی سوال میں ہی جواب کا موجود ہونا، یقینا یہ شاعری پر زیبی صاحبہ کا ایک احسان ِ عظیم تسلیم کرنا چاہئے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ قلم اور کتاب میں مگن رہنی والی زیب النساء زیبی صاحبہ زمانے کی ہم رقاب بھی ہیں۔
علم سے محبت کرنے والے گھر میں پیدا ہوئیں تو آس پاس کتابوں کی خوشبو سانسوں میں تو بس گئی اور یہ خوشبو گویا رگوں میں خون بن کر بھی بہنے لگی یہی وجہ تھی کہ ابتدائی تعلیمی دور سے ہی شعر کہنا شروع کردئیے تھے۔ اپنے دور کے نامور شاعر ساحر لدھیانوی سے متاثرتھیں۔ ادب میں پیش رفت پر والد صاحب کی ہمت افزائی نے خوب حوصلہ بڑھایارہی سہی کثر والدہ کا شاعری سے شغف بھی خوب کارگر ثابت ہوا، گویا کندن بنانے کا سارا سامان قدرت نے گھر پر ہی مہیہ کر رکھا تھا۔ مقرب حسین دہلوی، رئیس امروہی جیسے شعرا ء کرام کی سنگت میسر رہی ساتھ ہی راغب مرادآبادی، آفاق صدیقی،اور ذکی عثمانی صاحب بھی استادوں میں شامل ہیں۔ محسن اعظم محسن ملیح آبادی نے ان کی دونو ں کلیات کا بغور تکنیکی جائزہ لیا پھر وہ شایع کی گئیں۔اہل علم خوب سمجھ سکتے ہیں کہ ادب کے اتنے بڑے بڑے ستونوں سے نسبت ہو تو پھر منسوب کیساہوگا۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں زیبی صاحبہ کے کام پر تین ایم فل مکمل ہوچکے ہیں اور مزید پانچ تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ دنیا جہان کی ادبی تقریبات میں میں آپ بطورخصوصی مہمانِ اعزازی بھی شریک ہوتی رہی ہیں۔آپ کی شخصیت اور آپ کے کام پر مختلف جریدے اور خصوصی نمبر شائع ہوچکے ہیں۔ آپ کو ادب کی دنیا کی ہمہ جہت شخصیت کہا جانا چاہیے۔ آپ نے ادب کی تقریباً ہر صنف پر طبع آزمائی کی بلکہ مزید اصناف کی ایجادات بھی کیں جوادب پر آپ کا خصوصی احسان ہے۔
زیبی صاحبہ نے طنز و مزاح پر بھی طبع آزمائی کی اور انکے دو مجموعے اس شاعری کی اس صنف پر بھی شائع ہوچکے ہیں۔زیب النساء زیبی صاحبہ ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے قلم کو کسی خاص ادبی صنف کا پابند نہیں کیا بلکہ اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا ہر صنف میں منوایا۔
زیب النساء زیبی جیسے لوگ ہمارے ملک کے درخشاں ستارے ہیں یہ ملک کو قوم کیلئے باعث فخر ہیں، یہ لوگ اپنے اپنے شعبے میں خدائی فوجدار ہیں لیکن کیا انکی گراں قدر خدمات کے اعتراف کیلئے صرف ایک روڈ پر انکے ناموں کی تختیاں لگادینا کافی ہے؟ ارباب اختیار اس جانب توجہ دیں یہ لوگ اپنی اپنی زندگیاں ملک و قوم کی خدمت کیلئے وقف کر چکے ہیں یہ اس سے کہیں زیادہ پذیرائی کے مستحق ہیں، ہم حکومت وقت سے اپنے اس مضمون کے توسط سے درخواست کرتے ہیں کہ زیب النساء زیبی صاحبہ کی خدمات کا اعتراف اعلی سطح کے سرکاری اعزاز سے کیا جائے اور ادبیات کے ادارے کی ذمہ داری لگائی جائے کہ وطن ایسے نامور ستاروں کو تلاش کریں اور انہیں منظر عام پر لائیں۔
زیب النساء زیبی کی تخلیقات کی ایک طویل فہرست ہے۔ زیب النساء زیبی کی پچیاسی سے زائد ادبی اورپچیس کے قریب نصابی کتب، تخلیقات، اور تصنیفات ہیں۔ ”سخن تمام”،کلیات ِ