تحریر : واٹسن سلیم گل > کالم لکھنے بیٹھا > تھا موضع نئے سال کے حوالے سے دنیا > میں ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق > تھا۔کافی کچھ > لکھ چکا تھا۔ کہ اچانک خبر ملی کہ > صوبہ خیبر پختون خواہ کے ایک ضلع > میں چند گرجا > گھر بند کر دئے گئے ہیں۔ اور یہ > فیصلہ بھی صوبائ حکومت کے بجائے > ضلعی حکومت نے کیا > ہے۔ وجہ یہ بتائ گئ ہے کہ گھروں میں > گرجا گھر کھولنے کی اجازت نہی ہے۔ > میں نے مضید > معلومات کے لئے کچھ دوستوں سے > رابطہ کیا اور اپنے کالم کو جو نئے > سال کے حوالے سے > تھا اسے اپنے اگلے کالم کے طور پر > محفوظ کیا اور سوچا کہ میرے لئے > گرجا گھروں کی > بندش کے حوالے سے لکھنا زیادہ > ضروری ہے ، لکھنا شروع کیا نصف سے > کچھ زیادہ لکھ چکا > تھا کہ خبروں پر نظر پڑی کہ قصور > میں سات سالہ زینب کو ایک شیطان نے > اغوا کیا > زیادتی کے بعد اسے قتل کر کے کچرے > کے ڈھیر پر پھینک کر فرار ہو گیا۔ > اس خبر کو پڑھ > کر تھوڑی دیر کے لئے دماغ سُن ہو > گیا۔ ہوش بحال ہوئے تو سوچا کہ > گرجا گھر اتنے ضروری > نہی ہیں جتنا کہ ہماری بیٹیوں کی > حرمت اور عزت زیادہ ضروری ہے کیوں > خدا کا اصلی > گھر تو ہمارے دل اور دماغ ہوتے > ہیں۔ نہ کہ ہماری عبادت گاہیں > کیونکہ ہم اگر خدا کے > عبادت کے لئے لاکھ عبادت گاہیں بنا > لیں مگر اسکے احکامت پر عمل نہ > کریں تواسکا کوئ > فائدہ نہی ۔ تو میں نے گرجا گھروں > کی بندش کے حوالے سے بھی اپنی > تحریر کو اگلی بار > کے لئے محفوظ کیا اور پاکستان میں > کم سن بچوں کے ساتھ کے ساتھ ہونے > والے جنسی > واقعات پر لکھنے بیٹھا مگر جیسے ہی > میں نے اس موضع پر لکھنے کے لئے > انسانی حقوق کی > رپورٹوں پر تحقیقی نظر ڈالی تو > حیران رہ گیا کہ ہماری بہین بیٹیاں > تو جیسے جنگلی > جانوروں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں > اتنے زیادہ اور اتنے خطرناک > واقعات دیکھ کر میں > حیران رہ گیا۔ ایک سات سال کی > بچی جو اپنے > ماں باپ کی لاڈلی تھی جسے وہ پیار > سے بھی نہی مارتے تھے اسے ایک > شیطان صفت انسان > نے کس قدر تشدد اور تکلیف سے مار > دیا۔ آج زینب کی موت پر بہت شور > شرابہ ہو رہا ہے۔ > حکومت جلد مجرم کو پکڑنے کے دعویٰ > کر رہی ہے اور اپوزیشن کے ہاتھ میں > ماچس آگئ ہے > اس لئے وہ جتنا آگ لگا سکتی ہے لگا > رہی ہے۔ یہ شور شرابہ اور دو چار دن > چلے گا۔ > بعد میں لوگ اسے بھول جایں گے۔ آج > جب میں یہ سطور ٹائپ کر رہا ہوں ایک > خبر لاڑکانہ > سے سامنے آ رہی ہے کہ ایک پانچ سالہ > معصوم بچی مسکان کو نوڈیرو میں > اغوا اور > زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل > کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک خبر > جو کہ > سرگودھا سے ہے کہ ایک پندرہ سال کی > بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا > گیا۔ قصور سے > ہی ایک اور بری خبر آ رہی ہے کہ > قصور کی تحصیل پتو کی میں کھیتوں > سے ایک اور بچی > شرق عرف بوبی کی لاش ملی ہے جو تین > دن قبل اسکول جاتے ہوئے لاپتہ ہو > گئ تھی۔ اسے > بھی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا ۔ > پاکستان > میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے > حوالے سے اعدادو شمار شرمناک حد تک > زیادہ ہیں۔ > 2017 میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی > کے گیارہ سو ساٹھ واقعات رجسٹرڈ > ہوئے۔ صرف قصور > میں گزشتہ دو سالوں میں 14 بچیاں > درندگی کا نشانہ بننے کے بعد قتل > کی جاچکی ہیں۔ اسی > قصور شہر میں 2015 میں بچوں کے ساتھ > زیادتی کے دوران ان کی ویڈوں بنانے > والا ایک > گرو سامنے آیا تھا اس میں سے بھی > چند گرفتاریاں ہوئ تھی مگر کچھ > فرار تھے۔ ابھی > چند ماہ قبل ایک بچی کائنات بھی > اسی درندگی سے گزری ہے اور ابھی تک > ہسپتال میں داخل > ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس طرح کے > واقعات میں پنجاب سب سے آگے ہے اور > پنجاب میں > پاکپتن، قصور اور راولپنڈی سمیت > دارلحکومت اسلام آباد سب سے آگے > ہے۔ اور اتنے سارے > واقعات کے باوجود حکومت اور پولیس > کے اداروں کے سر پر نہ آسمان ٹوٹتا > ہے نہ ہی > زمیں پھٹتی ہے۔ ایک کانسٹبل > بھی نوکری سے > فارغ نہی ہوتا۔ زینب کے واقعہ نے > سب کو جگا رکھا ہے۔ دو چار دن بعد > یہ سب پھرسو > جایں گے اور پھر( خدا نہ کرے) کسی > بچی کے ساتھ زیادتی کے واقعہ کے > بعد بڑھکیں > ماریں گے۔ ان سے کوئ پوچھے کہ تم نے > شازیہ ، درشنا، ام کلثوم، علیزہ > فاطمہ اور ان > جیسی سیکنڑوں معصوم بچیوں کے > قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے > کے لئے کیا اقدامات > کئے۔حکومتی سطع پر تو ان کے پاس > جواب نفی > میں ہوگا۔ عمومی طور پر دیکھا گیا > ہے کہ بہت سے واقعات میں مجرم، > مقتولہ کے رشتہ دار > نکلتے ہیں۔ تو کیوں حکومتیں سطع پر > بچوں کو خطرات سے نمٹنے کے لئے > آگاہی پروگرام > تشکیل نہی دئے جاتے کیوں میڈیا کا > استمال کر کے بچوں کو نہی سکھایا > جاتا کہ ان کو > چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اپنے ماں > باپ کو بتانی چاہئے کیوں اسکولوں > میں بچوں کو ان > خطرات سے بچنے کے لئے بنیادی تربیت > کا انتظام نہی کیا جاتا۔ اور > ماں باپ کو بھی تربیت کی ضرورت ہے > کہ وہ > بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول رکھیں > تا کہ بچے اپنے دکھ ماں باپ سے چھپا > نے کے بجائے > ان سے شئیر کریں۔ کیا یہ کام بہت > مشکل ہے۔ اگر ہم یہ کام کر لیں تو > واقعات میں کمی > ضرور آسکتی ہے دوسرا قدم یہ ہے کہ > اس طرح کے واقعات میں جرم ثابت > ہونے پر مجرم کو > ایسی خوفناک سزا دی جائے کہ جس سے > ہر کسی کو عبرت حاصل ہو ۔ زینب کے > پوسٹ مارٹم رپورٹ > میں ڈاکٹروں کے مطابق زینب کے ساتھ > زیادتی ثابت ہوئ ہے اور زینب کی > لاش کے کچھ ڈی > این اے کے نمونے پنجاب فرانزک > سائینس اجینسی کو بھجوا دئے گئے > ہیں۔ اور اس کے > علاوہ 66 افراد پر شک کی بنا پر ڈی > این اے کے نمونے بھجوائے گئے ہیں ۔ > خدا کرے کہ > قاتل جلد گرفتار ہو اور اس معصوم > بچی کے خاندان کو انصاف ملے۔