بروس ریڈل دنیا میں امریکی دفاع، جنوبی ایشیا کے مسائل اور انسداد دہشت گردی کے ماہر کے طور پر عالمی سطح پر جانی پہچانی شخصیت ہے۔ انہوں نے امریکی خفیہ ادارے سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی CIA کے ساتھ بطور ماہر انسداد دہشت گردی 29 سال کام کیا اور 2006ء میں ریٹائر ہوئے۔ امریکہ کے داخلی دفاعی ادارے یعنی نیشنل سکیورٹی کونسل میں انہوں نے اپنے ملک کے 4 صدور کی خلیج عرب کے معاملات پر رہنمائی کی۔ ریڈل کئی کتابوں کے مصنف ہیں تو کئی عالمی جریدوں میں کالم لکھتے ہیں۔ ان کے موضوعات میں انسداد دہشت گردی، عرب اسرائیل تعلقات، خلیج فارس کے معاملات اور جنوبی ایشیا خاص طور پر پاک بھارت تعلقات شامل ہوتے ہیں۔ کئی ایوارڈ لینے والے 61سالہ بروس ریڈل آج کل نیویارک میں رہائش پذیر ہیں اور بروکنگ انسٹی ٹیوشن کے تحت قائم جان ہوپکن سکول آف ایڈوانسٹڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے پروفیسر ہیں تو البرائٹ سٹون برج گروپ سے بھی وابستہ ہیں۔
29جولائی 2014ء کو ان کی ایک کتاب ”وٹ وی وون” ہم نے کیا جیتا؟ “What we won” منظر عام پر آ رہی ہے۔ اس کتاب میں ان کا موضوع روس کے خلاف افغان جہاد ہے، جس کے بارے میں آج بھی ہمارے ہاں بیشتر اسلام اور جہاد بیزار لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ امریکہ کی جنگ تھی جس میں پاکستان کو بہت نقصان ہوا ۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن بروس ریڈل نے اپنی اسی کتاب میں ایسے تمام نظریات ایسا رد کیا ہے کہ ان کے خیالات کا اب کسی کو جواب دینے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ بروس ریڈل لکھتے ہیں کہ سابق سویت یونین کے خلاف افغان جنگ سی آئی اے نہیں بلکہ ضیاء الحق کی جنگ تھی جس کیلئے آئی ایس آئی نے مجاہدین کو جنگی حکمت عملی اور قیادت فراہم کی۔ امریکہ سے شائع ہونے والے فارن پالیسی میگزین میں اپنی کتاب کے حوالے سے لکھے گئے حالیہ آرٹیکل میں بروس ریڈل لکھتے ہیں، مجھے معلوم ہے کہ سب یہی سمجھتے ہیں کہ یہ ”چارلی ولسن کی جنگ” تھی لیکن ایسا نہیں ہے، یہ ضیاء الحق کی جنگ تھی۔ سی آئی اے کبھی افغانستان میں نہیں گئی اور مجاہدین کو بھی تربیت نہیں دی۔ اسی لئے ہمارا کوئی جانی نقصان بھی نہیں ہوا کیونکہ ہم نے کوئی خطرہ مول لینا ہی نہیں تھا۔ جتنی بھی قربانیاں اور اصولی خطرات لیے وہ سب افغانستان اور پاکستان کے لوگوں نے مول لیے۔ اسی لئے یہ چارلی ولسن نہیں بلکہ ضیاء الحق کی جنگ تھی جو ایک جوشیلے اور پکے مسلمان تھے۔ ضیاء الحق نے مجاہدین کو اس لیے تربیت فراہم کی کیونکہ ان کی سوچ تھی کہ لادین، کمیونسٹ اور ملحدین کے خلاف لڑنا اور انہیں افغانستان سے بھگانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس لڑائی میں اسلام سے گہرا تعلق رکھنے والا ملک سعودی عرب بھی شامل تھا ۔ سعودی عرب نے افغان مجاہدین کیلئے بہت زیادہ فنڈز اکٹھا کیے جو اپنے عروج تک پہنچ کر ایک مرتبہ 20 ملین ڈالر فی مہینہ تک جا پہنچے۔ افغانستان میں سویت یونین کے خلاف لڑائی نے ایک ایسا دانشورانہ ماحول پیدا کیا جس کی وجہ سے عالمی جہاد ابھر کر سامنے آیا۔ القاعدہ کو امریکا نے تربیت یا پھر مالی معاونت فراہم نہیں کی۔ اپنی ۔ریڈل لکھتے ہیں کہ ایک امیر سعودی باشندے اسامہ بن لادن نے براہِ راست 1980 تک مجاہدین کی حمایت کی۔ آئی ایس آئی کی مدد سے اسامہ نے افغانستان میں مجاہدین کیلئے ایک شاندار اڈہ تعمیر کرایا جس میں ایک اسپتال اور میلوں تک پھیلی ہوئی زیر زمین سرنگیں تھیں جن میں اسلحہ بھرا ہوا تھا۔ یقینی طور پر جب سوویت فوج کو افغانستان سے بھگا دیا گیا تو بن لادن اور عزام نے جہاد کو جاری رکھنے کیلئے نظم قائم کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ امریکا آتے ہوئے گلوبل جہاد کو دیکھ نہیں پایا، یہ ایک ناکامی ہے۔ 1980 میں ہم خوش قسمت تھے، پکے مسلمانوں کیلئے امریکا کے مقابلے میں لڑنے کیلئے ایک بڑا شیطان موجود تھا۔
بروس ریڈل کے خیالات پڑھئے اور دیکھئے کہ وہ کس طرح اپنے آپ کو خوش قسمت کہتے ہیں تو افغان مجاہدین کے مقابلے میں آنے والی قوت کو وہ شیطان ، تواس کے خلاف لڑنے والوں کو پکا سچا مسلمان۔ یہ آج کے ان نام نہاد دانشور لوگوں کے گھر کی گواہی ہے جو امریکہ کی چوکھٹ پر سجدہ کرنا اپنی سب سے بڑی شان اور سعادت سمجھتے ہیں لیکن وہ اب اس کا جواب نہیں دیں گے بلکہ اس پر خاموشی سے گزر کر وہی پرانا راگ الاپنا شروع کر دیں گے جو انہیں ”وارے کھاتا ہے” ہاں!کوئی کچھ بھی کہے، سچ چھپتا نہیں اور اسی افغان جہاد نے جو رنگ دکھایا، اس کا ایک رنگ ہمیں گزشتہ دنوں ایک اور خبر پڑھ کر دیکھنے کو ملا جب پتہ چلا کہ روس کے علاقہ تاتارستان میں اسی ماہ رمضان میں چار بڑی جامع مساجد کے افتتاح کا اعلان ہوا ہے۔
Zia-ul-Haq
جی ہاں! وہی روس جس نے اپنے ملک میں کمیونزم کو حکومت کی بنیاد بنایا تو اسلام کو سب سے پہلے نشانہ بنایا گیا۔ لاکھوں مسلمان تہہ و تیغ کئے گئے۔ 14ہزار مساجد کو گرا دیا گیا۔ قرآن پڑھنے پڑھانے ہی نہیں بلکہ گھر میں رکھنے تک پر پابندی عائد تھی۔ مسلمان اپنے بچوں کا اسلامی نام بھی نہیں رکھ سکتے تھے یہی تو وجہ ہے کہ آج بھی وہاں رحمان ”رحمانوف” ہے بلکہ ہر مسلمان ”یوف” اور ”یدوف” ہے۔
مولانا امیر حمزہ اپنی کتاب ”روس کے تعاقب میں” میں لکھتے ہیں کہ میں افغان جہاد کے بعد بغیر ویزہ کے ماسکو کے عجائب گھر میں پہنچا تو وہاں وہ ٹیڑھا میڑھا کانسی کا مجسمہ بھی د یکھا جس کے بارے میں کمیونسٹوں نے کہا تھا کہ نعوذباللہ یہ مسلمانوں کا خدا ہے اور اسے ہم نے ٹھوکریں مار کر ملک سے نکال دیا ہے، پھر کوئی ہے جو اسے ہمارے ملک میں دوبارہ لا کر دکھائے… آج اسی روس کے دارالحکومت ماسکو کی ایک چوتھائی آبادی مسلمان ہیں۔ نو مسلموں کی تعداد تیزی بڑھ رہی ہے، مساجد تنگ پڑ رہی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بی بی سی نے لکھا تھا کہ عیسائیت کے پیروکار پریشان ہیں کہ مسلمان جس تیزی سے ماسکو کے ماحول پر چھا رہے ہیں، اس حال میں ان کا کیا بنے گا؟۔
آج بھی روس رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے لیکن اس کی آبادی مسلسل کم ہو رہی ہے تو اضافہ صرف مسلم آبادی میں ہے۔ اسی روس کی یہ ریاست معدنی ذخائر سے مالا مال ہے۔ پٹرول اور گیس کی فراوانی کے سبب روسی معیشت کا زیادہ انحصار اسی ریاست پر ہے۔ روس کو فکر لاحق ہے کہ دیگر مسلم ریاستوں کی طرح کہیں تاتارستان بھی الگ نہ ہو جائے۔ سٹالن کے دور میں روسی فوجیوں نے تاتار مسلمانوں کو نیست و نابود کیا تھا، خون کی ندیاں بہائیں۔ قاذان شہر کی جامع مسجد سمیت سینکڑوں مساجد شہید کر دی گئیں۔ قاذان شہر کی اس جامع مسجد کی باقیات پر 2005ء میں براعظم یورپ کی سب سے خوبصورت اور عالیشان مسجد دوبارہ تعمیر کی گئی۔ رواں ماہ رمضان میں یہاں کئی نئی مساجد کا افتتاح ہوا۔ بڑی جامع مسجد کے علاوہ 18ویں صدی میں تعمیر کی گئی گہرے سرمئی رنگ والی ”المرجانی” مسجد کو دوبارہ مسلمانوں کے لئے کھول دیا گیا۔ بھارت و پاکستان کی طرح یہاں بھی علماء کو علامہ اور مولانا کہا جاتا ہے۔ اس سال رمضان میں سبھی مساجد میں تراویح کا اہتمام ہوا۔ یہاں کی سبھی عورتیں حجاب کرتی ہیں۔ ماہ صیام میں بازاروں میں نئی مصنوعات پیش کی جاتی ہیں۔ جائے نماز، ٹوپی، قرآن شریف کے عکسی و الیکٹرانک نسخے کافی تعداد میں فروخت کئے جاتے ہیں۔ تاتارستان میں روسی عوام کو سیکولر نظام کے تحت من چاہی زندگی گزارنے کی آزادی ہے لیکن یہاں 12سال کی عمر کا ہر مسلمان بچہ روزہ رکھتا ہے۔
تاریخ کا منظر نامہ دیکھئے کہ اسلام کے آغاز کے ساتھ ہی دشمنان اسلام کا سب سے بڑا ہدف مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ مساجد رہی ہیں۔ وسطی افریقی جمہوریہ میں گزشتہ چند ماہ کے اندر سینکڑوں مساجد شہید ہوئیں۔ اسرائیل غزہ میں مساجد پر بمباری کرتا ہے۔ برما کے بودھ مت مساجد گراتے اور جلاتے ہیں۔ بھارت میں ہندو بھی روزانہ یہی کچھ کرتے ہیں لیکن ان سب کی حرکتیں تو روس کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں تو پھر ہمیں بھی پریشان و غمزدہ ہونے کے بجائے وہی کچھ کرنا ہے کہ جو ہمیں ہمارا اللہ کہتا ہے کہ” ہمت نہ ہارو اور غم زدہ بھی نہ ہو کہ غالب تم ہی رہو گے، اگر تم ایمان والے ہو۔