تحریر : حاجی زاہد حسین خان عباسی خلافت کا دور تھا معتصم باللہ کی خلافت تھی ایک رات قیصر روم کی افواج نے اسلامی سلطنت کے سرحدی علاقوں پر شب وخون مارا ۔ مسلمان آبادی کا قتل عام کیا اور چند مسلم خواتین کو قیدی بنا کر ساتھ لے گئے ان خواتین میں ایک ہاشمی خاتون بھی تھی جس نے خلیفہ کو پکارا اے امیر المومنیناے ابن ہارون تم کہاں ہو تمہاری بہنیں دشمن کے قبضے میں ہیں۔ تم آرام سے سوئے ہوئے ہو۔ خلیفہ تک جب یہ پیغام پہنچا وہ تڑپ اٹھا نقارے بج اٹھے خلیفہ گوڑے کی پیٹھ پر بیٹھا فوج کی کمان سنبھالی اور بے خبر دشمن پر جا چڑھ دوڑا مقبوضہ علاقے آزاد کرائے ۔ قیصر روم کی جائے پیدائش عموریہ پر بھی قبضہ کیا اور لبیک لبیک یا اخی پکارتا ۔ قیدی خواتین بھی جا آزاد کرا لیں۔ یہ تھے وہ غیرت مند دینی اور ملی غیرت و حمیت سے سر شار مسلم حکمران خلیفے ۔ قارئین ابھی کل کی بات ہے۔
روسی سپر طاقت کے متکبر حکمران گورباچوف جس نے ہمارے ہمسائے افغانستان پر شب و خون مار دیا چڑھائی کر دی۔ اور ہمارے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق کے پاس اپنا وزیر خارجہ خروشیف پیغام دیکر بھیجا ۔ مسٹر ضیا الحق ہمارے راستے کا روڑہ نہ بنو ہٹ جائو۔ ورنہ بس پھر کیا تھا ہمارے ایمانی قوت سے لبریز جنرل صدر پاکستان جذبات میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور پوچھا مسٹر خرشیف ورنہ کیا جائو گوربا چوف کو میرا پیغام دو خدا کی قسم ضیا الحق کی گردن کات کر ہی تم ہماری پاک سر زمین پر داخل ہو سکو گے ۔ اور پھر دینی غیرت اور حمیت سے سرشار ہمارے جنرل ضیا ء نے روسی سپر طاقت کے سامنے سینہ سپر ہو کر اس کا غرور مٹی میں ملا دیا اور اپنا ملک بھی بچایا اور ہمسایہ ملک اس رجم سے آزاد کرا لیا۔ دوسری امریکی سپر طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جوہری قوت بھی حاصل کی اور اسکی امداد کو مونگ پھلی سے تشبع دیکر ٹھکرایا بھی پھر قدرت نے اسے بیت اللہ کے مصلے پر جا کھڑا کر کے پاکستان کا ہی نہیں امت مسلمہ کا امام اور قائد بنادیا۔ قارئین یہ ہوتے ہیں زندہ دل آئینی قوت ارادی کے مالک امیر سلطنت اور حکمران جو خود تو قوم اور ملت پر قربان ہو جاتے ہیں مگر اپنے وطن پر آنچ نہیں آنے دیتے ۔ اگر ہم یہ کہیں تو مبالغہ نہ ہو گا کہ جنرل ضیا الحق کے بعد قوم یتیم ہو گئی اور ہمارا پاکستان بے خصم ہو گیا۔ بلکہ ساری امت مسلمہ لا وارث ہوکر رہ گئی۔
قارئین جنر ل اور ڈکٹیٹر وہ بھی تھی اور ایک جنرل اور ڈکٹیٹر بعد میں بھی قوم پر مسلط ہوا جو صرف ایک فون کال پر ڈھیر ہو گیا۔ قوم اور ملک گروی رکھ دیئے گئے۔ مائوں بہنوں کو قوم کے جوانوں کو وطن کی بیٹیوں کو ڈالروں کے عوض بیج دیا گیا۔ راستوں اڈوں کو فروخت کر دیا گیا۔ مہمان سفیروں اور لمبی داڑھی والے وطن ک۔ے بیٹوں کو گوانتا موبے پہنچا دیا گیا ۔دوستوں برادر ممالک سے دشمنی اوردشمن اتحادی افواج کا اتحاد بن گیا۔ معصوم بچوں پر آگ برساتے ڈرون چھوڑدئے گئے ڈالر آتے رہے مگر وہ قوم و وطن کے کام نہ آسکے ۔ قارئین وہ تو ایک بزدل مسلم جرنیل تھا مگر بعد میں بھی آنے والے ہماری جمہوری لیڈروں نے اپنی بزدلی کے وہ ریکارڈ قائم کئے جسکی کہیں مثال نہٰن ملتی ۔ پی پی پی کے دور حکومت نے بھی اسی پالیسی کا تسلسل جاری رکھا۔ ملک ٹھیکوں پر کمیشن در کمیشن پر چلتا رہا ڈالر آتے رہے راہداریاں سرحدیں کھلی رہیں ہمارے اڈوں سے اٹھ کر ڈرون نہتے عوام پر آگ میزائل برساتے رہے۔
ملالہ اور ایبٹ آباد جیسے شب و خون جاری رہے ہمارے خوبصورت فوجی جوان دوسروں کی جنگ میں قربان ہوتے رہے۔ اندرون خانہ جنگ اور بیرونی شب و خونوں میں ہم نے ڈیڑھ لاکھ سول اور فوجی جانیں قربان کر دیں ساتھ ساتھ امریکی ڈالروں کی برسات بھی اور قومی وسائل کی قربانی الگ مگر ہمارے جمہوری حکمرانوں نے کوئی دلیرانہ موقف یا جان چھڑانا پالیسی اختیار نہ کی ایسے میں دوسری ن لیگی جمہوریت قائم ہو گئی۔ انہوں نے بھی تمام ملکی معاملات کا روباری دوکانداری انداز میں چلانے ملک کی پالیسیاں نہ بدلیں ۔ بلی کے گلے میں گھنٹی نہ باندھی تھی نہ باندھی گئی ۔ دونوں اطراف للکار و یلغار جاری رہی اینٹ کا جواب پتھر تو کیا دینی حمیت و ملی غیرت کے یہ دو بول نہ بول سکے ایسے میں سر منڈاتے ہی اولے پڑگئے اقتار سے باہر جماعتیں سڑکوں پر دھرنے جلسے جلوس کرپشن چوری کی صدائیں سیاست کی جنگ دھاندلی دھاندلی ن لیگ صادق رہی نہ نوازشریف آمین عدالت عظمی نے ایٹمی دھماکے کرنے والے نواز شریف کو نا اہلی کا ٹھپہ لگا کر گھر بھیج دیا۔ ملک بے خصماں ہو گیا۔غیر مصروف صدارتیں وزارتیں نہ زندہ دل صدر نہ لگتا ہے نہ للکارنے والا وزیر اعظم اور پھر وہ ہو گیا جسکا وہم و گمان نہ تھا۔ امریکی واحد سپر طاقت کے صدر نے ہمارا کھاتہ کھول لیا۔ جمہوری حکمرانوں کے ہاتھوں لٹے پھٹے پاکستان زبر دستی کے فرنٹ لائین پاکستان کو للکار دیا گیا۔
قرض دار قرار دیا گیا تابعداری میں قصور وار قرار دیا گیا۔ ہائے ہم زود و پشمان کا پریشان ہونا کہاں سے اب ذولفقار علی بھٹو لائیں ۔ کہاں سے جنرل ایوب اور ضیا الحق لائیں کون سینہ سپر ہو کر کھڑا ہو قوم کس کے پیچھے جا کھڑی ہو قیادت اور قائد سے محروم پاکستان آج ایک نے للکارہ کل دوسرا کھرا ہو جائے گا۔ ان لڑتے جھگڑتے جمہوری لیڈروں کے ہوتے ہوئے بھی جرات مند دلیر قیادت سے محروم ہمارا یتیم پاکستان شمالی کوریا۔ کیوبا ، وینرویلا کے چھوٹے سے ملکوں کی سی قیادت کہاں سے لائیں برادر ایران اور ترکی جیسی دلیرانہ پالیسیاں کہاں سے اپنائیں۔ ان بدمعاشوں سے اپنے اڈے اور راہداریاں کیسے چھڑائیں ۔ ایک ایک شب و خون کا حساب کیسے چکائیں ملک کے مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں کیسے کھڑا کریں ۔ پاکستان کا قاعد اور امت کا خلیفہ کسے بنا ئیں وطن کے ہزاروں کڑیل شہید جوانوں کی مائوں کو کیا بتائٰیں قوم کو یہ مرثیہ کیسے سنائیں یہ ہماری بدبختی اور ملک کی بدقسمتی نہیں تو پھر کیا ہے۔
خدا کے لئے ہمارے جمہور و حکمرانو سیاستدانو خدا کے لئے اس سے پہلے کہ ڈو مور کا مزید کوئی حکم آئے پھر سے کہیں للکار و یلغار ہو ایک پیج پر آجائیں۔ جیسی تیسی بھی ہے موجودہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں۔ نام نہاد دہشت گردی کی اس جنگ سے اور اتحادی فوج سے جان چھڑائیں کرپشن سپورٹ سے جان چھڑا کر افغان جاتی راہداریوں کا کرایہ بڑھا کر انکل سام کا قرضہ مکائیں ان ملک دشمن دقیانوسی پالیسیوں سے جان چھڑا کر نئے دوست بنائو اور دشمن گھٹائو یہ ایک غنیمت موقع ہمارے ہاتھ آیا ہے۔ بے وفا دھوکے باز سپر پاور امریکی چنگل سے نکلنے کا ورنہ رہا سوال ن لیگ کی کرپشن اور شریفوں کے صادق اور آمین ہونے کا اہلیت اور نا اہلیت کا تو اس کا فیصلہ آنے والے الیکشن پر اور عوامی عدالت پر چھوڑ دیں یہی ہمارے لئے اور ہمارے پاکستان کے لئے بہتری سلامتی اور بقاء کا باعث ہو گا ( انشاء اللہ )
Haji Zahid Hussain
تحریر : حاجی زاہد حسین خان ممبر آل پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ hajizahid.palandri@gmail.com