تحریر : انجینئر افتخار چودھری کاش میں تمیں اپنے ہاتھوں سے رخصت کرتا ۔بیٹا میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے تمہیں شرمندگی ہو۔میری جان اپنی امی کا خیال رکھنا۔شہید یعقوب میمن کو اس دن پھانسی پر لٹکایا گیا جب اس کی سالگرہ تھی ٣٠ جولائی ١٩٦٢ کو ممبئی میں پیدا ہونے والے یعقوب میمن نے آخری خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ناگپور جیل کے سپرنٹنڈنٹ یش ڈیسائی سے اپنی اس بچی سے بات کرنے کی خواہش کی جسے گرفتاری کے وقت پانچ دن کی چھوڑ کر آیا تھا۔کل دنیا نے بھارت کا وہ مکروہ چہرہ دیکھا جس نے ایک بہترین چارٹرڈ اکائنٹنٹ کی گردن لمبی کر دی اس کا قصور یہ تھا کہ وہ ممبئی حملوں میں نامزد ملزم کا بھائی ہے اسے اس جرم میں سزا دی گئی کہ اس نے پاکستان سے تربیت حاصل کرنے والوں کو اسلحہ مہیا کی رقم دی ان کی مدد کی۔یعقوب کی خواہش تھی کہ وہ اپنی بیٹی سے بلمشافہ اکیلے میں مل سکے۔زبیدہ اکیس برس کی ہو گئی ہے باپ نے تین منٹ کی کال میں اسے کہا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل کرنا بیٹی میں دنیا سے صرف ایک ہی خواہش لے کر جا رہا ہوں کہ کاش تمہارے ہاتھ پیلے کرتا۔یش ڈیسائی ایک بہادر جیل سپرنٹینڈنٹ نے بھگتی آنکھوں کے ساتھ فون یعقوب سے لے لیا۔کوٹھڑی کی جانب جاتے ہوئے اس نے اپنے بھائی سلمان کو چیختے ہوئے کہا کہ میری بیٹی کا خیال رکھنا میری بیوی کا خیال کرنا۔
مہتہ اینڈ میمن کمپنی کا سی ای او جس نے بعد میں اپنے والد یعقوب میمن کے نام پر ایک کمپنی بنائی جسے بھارت کی بہترین کمپنیوں میں شمار کئے جانے لگا۔اسے ممبئی کی میمن کمیونٹی نے بیسٹ کمپنی کا ایوارڈ بھی دیا۔یعقوب میمن پھانسی چڑھ گئے ممبئی کے بڑے قبرستان میں دفن کرتے ہوئے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ریاستی دشمن کے بارے میں اپنا فیصلہ دے گیا۔صرف دو چینیلز کو کوریج کی اجازت تھی دونوں انیکرز ڈرے سہمے ہوئے تھے کہ ہجوم کہیں بپھر نہ اٹھے۔لوگ گلی گلی میں شور ہے مودی سرکار چور ہے کے نعرے لگاتے رہے۔اک چرغ اور بجھا اور بڑی تاریکی شب کی سنگین سیاہی کو مبارک کہہ دومیمن کی شہادت کوئی پہلا واقع نہیں اس سے پہلے کئی جاں نثار شمع آزادی پر قربان ہو گئے۔پاکستان کی کسی لیڈر نے کسی رہنما نے میمن کی شہادت پو لب نہیں کھولے منہ میں گنگنیاں ڈال لیں۔ایک ماں کا بیٹا ایک بیٹی کا باپ اس جہاں سے رخصت ہو گیا۔عالم اسلام کا ٹھیکے دار ملک خاموش رہا وہ ملک جس کی بنیاد اسلام کے آفاقی نظریے پر ہوئی جس نے امت مسلمہ کی قیادت کا دعوی کر رکھا تھا ہماری وزارت خارجہ ہمارے لیڈران چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں سب خاموش تھے سب۔
یش ڈیسائی سے بھی زیادہ خاموش جس نے ایک معروف مجرم کو اپنا فون دے دیا جس کی آنکھوں نے نمکینی ذائقہ چکھا شائد ہم بزدلوں کی بستی کے مکین ہیں۔شائد ہم مرغیوں کے ڈبے کے رہائشی ہیں جس ایک کو قصائی پکڑتا ہے وہ کڑاک کڑاک کرتی اور باقی شکر کرتی ہیں لیکن شام کو دڑبہ آخر خالی ہو جاتا ہے۔صبر کریں قصائی زندہ ہے۔بھارت کب تک آزادی کے متوالوں کی گردنیں لمبی کرتا رہے گا۔میرا سوال سب سے حقوق انسانی کے ٹھیکیداروں سے ہے عاصمہ جہانگیر کفیل برنی وہ برنی جو سربجیت سنگھ کو نام کے چکروں میں ڈال کر مشرقی پنجاب چھوڑآیا ۔سربجیت نے خود اعتراف کیا کہ وہ جاسوسی کرتا رہا ہے اور لاہور ملتان دھماکوں میں شریک رہا ہے۔حکومت خاموش اس لئے کہ شائد میاں نواز شریف کا بھارت دوستی کا پلان خطرے میں پڑ جائے گا لوہے کی ملیں نہیں لگ پائیں گی۔وہ بھارت اور بھارتی جن کے سامنے میاں صاحب نے کہا کہ ہم بھی اسی رب کو مانتے ہیں جس کو آپ مانتے ہیں درمیان میں یہ چھوٹی سی لکیر ہے بس۔میاں صاحب کی خوش قسمتی کے اب اس ملک میں مجید نظامی بھی نہیں جس نے ان کو روکا تھا ٹوکا تھا اور زندہ ہوتے تو ضرور بولتے۔
Yaqoob Memon
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل دکان اپنی بڑھا گئے یعقوب میمن کی شہادت نے بہت سے سوال جنم دیے ہیں کیا بھارتی مسلمان کی زندگی اتنی سستی ہے کہ اسے جب چاہے جہاں چاہے کسی بھی الزام لگا کر پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے۔مودی سے جب پوچھا گیا یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ بھارت کے وزیر اعظم نہیں بنے تھے کہ ممبئی حملوں کے وقت اگر آپ پرائم منسٹر ہوتے تو کیا کرتے ؟تو اس نے برجستہ جواب دیا وہی کرتا جو میں نے گجرات میں کیاتھا۔مودی صاحب!کیا آج دو قومی نظریہ سچائی بن کر سامنے نہیں آ گیا۔بھارت کے مسلمان جتنا بھی انڈیا کے لئے کر لیں انہیں کبھی بھی بھارتی نہیں جانا جائے گا۔اس کے لئے مولانا ابوالکلام آزاد فخرالدین جیسے لوگ ہی کیوں نہ بھارت بھارت کریں لیکن آخر کار انہیں اسی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا جو دیش دروہیوں کے لئے بنایا گیا ہے۔اور ہم۔۔۔کبھی کشمیری شالیں اور ملتانی آم بھیجتے ہیں ۔میاں صاحب آپ کون سی مسلم لیگ سے تعلق رکھتے ہیں وہ مسلم لیگ جس کے پاس پرچم نہیں تھے تو گرمی کے ان دنوں میں مکئی کے ٹانڈے لے کر نعرے لگاتی رہی کہ بٹ کے رہے گا ہندوستان بن کے رہے گا پاکستان یا وہ مسلم لیگ جو اسی رب کو پوجتی ہے جس کو بھارتی پوجھتے ہیں۔کسی نے سچ کہا تھا کہ اس ملک کی فوج نہ ہو تو سیاست دان پاکستان کو بیچ کر پتیسہ کھا لیں ۔کیا یہ قائد اعظم کی مسلم لیگ ہے یا جاتی امراہ سے بچھڑے ایک ایسے پنجابی کی لیگ ہے جسے اپنے آباء و اجداد کے دیس سے لگائو ہے اور وہ مرے جا رہا ہے۔کیا آپ نے اوپر لکھے گئے الفاظ نہیں کہے تھے؟مجھے دلی طور پر دکھ ہوتا ہے جب آپ قائد اعظم کی جماعت کا وارث ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔
ہم نے فیصلہ کرنا ہے کیا ہم آزادی سے مان سے شان سے زندہ رہنا چاہتے ہیں یا سکم بھوٹان نیپال اور بنگلہ دیش بن کر۔بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا نہ ہی حکمرانی صفوں میں نظر آتا ہے اور سچ پوطھئے اپوزیشن میں کوئی نہیں ہے۔سب کے سب بھارت سے اچھے تعلقات دوستی پیار اور محبت کی پینگیں بڑھانے کی بات کرتے ہیں۔صرف فوج ایسا ادارہ ہے جسے پاکستان کی نظریاتی اساس اور اس کے ازلی دشمنوں کا علم ہے۔جنرل راحیل اس میدان میں امید کی آخری کرن ہیں۔زندگی میں کبھی مارشل لاء کی طلب نہیں کی اور نہ ہی اب ہے ۔باوجود اس کے جنرل مشرف دور میں جنرل اسد درانی کرنل طارق ملک کے ہاتھوں اذیت کا شکار رہا مگر پھر بھی اپنی پاک فوج کے بارے میں کبھی غلط نہیں سوچا۔سالم پیش کرتا ہوں ان شہداء کو ملک کے دفاع کے لئے بارڈروں پر کھڑے ہیں آپریشن ضرب عضب میں مصروف فوجیوں کو سلام۔آج کراچی میں لاشیں نہیں گرتیں آج شہر قائد میں سٹریٹ کرائمز نہ ہونے کے برابر ہیں یہ رینجرز کا ہی کمال ہے اور فوج کا ہی کام ہے۔یعقوب میمن کی شہادت ہوئی۔جدہ میں شیر بہادر خان جو پی ٹی آئی کے ایبٹ آباد شاخ کے صدر ہیں ان کے سسر انجینئر عبدالرفیع کے گھر پر انڈیا کے معروف شاعر سے میں نے پوچھا کہ آپ نے یہ اشعار کس تناظر میں لکھے
گلوں کے رنگ ہمارے ہی فکر و فن سے اٹھے بہار ساتھ اٹھے گی جو ہم چمن سے اٹھےدامن پے کوئی چھینٹ نہ خنجر پے کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہوجواب دیا ١٩٧٥ میں جب اندرا گاندھی نے ہنگامیت لاگو کی تو انڈیا کے مسلمانوں کے بارے میں لکھا تھا۔بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا گیا حتی کے جبری نس بندی بھی گئی۔یعقوب کی موت شہید کی موت ہے۔شہید کبھی مرا نہیں کرتے۔ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سامنے ہزار مشکلات ہیں بڑے چیلینجز ہیں اس پاکستان کے سامنے مجبور دبے ڈرے سہمے حکمران لوگ اور سہمی ڈری ہوئی اپوزیشن۔لیکن اگر زندہ ہیں تو اٹھارہ کروڑ عوام وہ لوگ جو شیر ہیں اور وقت آنے پر لکیروں کو ہمالہ سے بلند کر لیتے ہیں۔زبیدہ بیٹی ہم کبھی نہیں کہیں گے بھارتی مسلمان اپنے وطن سے غداری کریں مگر اتنا ضرور کہیں گے کہ آپ کی باپ کی طرح سید علی گیلانی کی طرح بھارتی فاشسٹ حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جئیں۔یعقوب شہید زندہ باد سچے جذبے پائیندہ باد