تحریر: انجینئر افتخار چودھری ویسے سنکی قسم کے لوگوں سے مجھے چڑ ہے، ہر دم ریبل، ہر بات کو نہ تسلیم کرنا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ٤ اپریل ١٩٧٩ کو پھانسی ہوئی تو با با سراج جو اب مرحوم ہو چکے ہیں انہوں نے کہا یہ ایک سازش ہے ایک پلان ہے جس کے تحت ضیائالحق نے انہیں دبئی بھیج دیا ہے انہیں بلکل پھانسی نہیں ہوئی۔انسان مختلف کیفیات سے گزرتا ہے وہ کبھی کبھی محلے باغبانپورے کا مولوی سراج بھی بن جاتا ہے۔انھے واہ اعتماد کرتا ہے۔ میں بھی آج کل کا کے اور عباس کا ابا مولوی سراج بن گیا ہوں۔پتہ نہیں ایک عرصے سے مجھے لگ رہا ہے کہ بریطانیہ کبھی بھی الطاف حسین کو شکنجے میں نہیں لے گا۔ میرا وجدان کہتا ہے گورہ اتنا بے وقوف نہیں۔
آپ کو یاد ہو گاایک بار تو ایسا لگا کی الطاف صبح گیا شام گیا۔عمران فاروق کیس مین اڑس لیا جائے گا۔اس وقت بھی میرا کہنا تھا گورے کبھی وہ کام نہیں کریں گے جس کا فائدہ پاکستان کو ہو گا۔ویسے ہم بھی خوب ہیں اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی کوشش کرتے ہیں جس کے سبب بیمار ہوئے۔بھلا بریطانیہ ہمارا فائدہ کرے گا؟کیوں کرے گا ؟کیا ضرورت پڑی ہے اسے؟اور ہم بھی بڑے سادہ ہیں میر سے بھی زیادہ کہ ایک بار اس کے ہاتھوں ڈسے ہوئے دوبارہ اس کھڈ میں انگلی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔تقسیم پاکستان کے وقت جو ڈنڈی ریڈ کلف اور اس کی ٹیم نے ماری وہ بھی ہمیں پتہ ہے۔
راتوں رات گورداس پور کو انڈیا کے حوالے کر دیا۔بہت سوں کا کہنا ہے یہ بڑی لمبی پلاننگ تھی وہ کیا تھی کہ کشمیر کا راستہ ہند کو دے دیا جائے۔اور پھر ایک ناسور جنم لے گیا۔اب تو ہم بڑے ماڈرن ہو چکے ہیں ہمیں کسی سے کیا لینا دینا کشمیر کشمیریوں کا ہے وہ جانیں ہمیں پرائی کیا پڑی ہے۔مجھے اگر کوئی کہے کہ مشرف کو کس جرم میں سزا دوں تو میں کہوں گا کہ اس ظالم نے سب سے پہلے پاکستان کا نام نہاد نعرہ ایجاد کیا اور عالم اسلام کا شہہ زور ورکشاپ کا چھوٹو بنا دیا۔جب محسود قبائل نے کشمیر کی آزادی میں مدد کی تو اسی کے دور میں ان پر ڈرائون اٹیکس کی بھرمار کر دی گئی۔زرداری دور اور موجودہ دور میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ انگلینڈ نے ہند کے سنہری خطے کو چھوڑتے وقت جو شدید قسم کی زیادتیاں کیں اس میں گرداس پور کو انڈیا کے حوالے کرنا جرم عظیم شامل ہے گرچہ پاکستان کا ایک قادیانی وزیر خارجہ چودھری ظفراللہ خان بھی اس میں شریک تھا اس کی غرض و غائت قادیاں کا گائوں تھا جو ایک کذاب نبی کا مسکن تھا وہ اسے ہند میں ہی رکھنا چاہتا تھا اسی لئے گورداس پور آخری دنوں میں ہندوستان کو دے دیا گیا۔
Pakistan
اس غیر منصفانہ تقسیم سے لہو کی ندیاں بہہ گئیں۔خیر میں موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں میڈیا نے اس طرح کی ہائیپ کریئٹ کر دی ہے کہ اسے آئے روز نئی نئی خبروں کی تلاش رہتی ہے۔اب اس کے ہاتھ بی بی سی کی رپورٹ آ گئی ہے جس میں اس ادارے نے وہی گھسی پٹی خبریں دی ہیں جسے یہ قوم ایک عرصے سے سن رہی ہے۔کون نہیں جانتا کہ ایم کیو ایک ایک فاشسٹ تنظیم ہے اس کا سارا دارومدار عسکریت ہے۔انگریز ڈاکو رابن ہڈ اور ہمار ڈاکو ملنگی یہی کچھ کرتے تھے امیروں کو لوٹو اور غریبوں میں بانٹو۔اس تنظیم کی واحد خوبی یہ ہے کہ یہ لوگوں کے کام کرتی ہے لیکن اس معصوم عوام کو بلکل علم نہیں کہ اس کے سارے لیڈر سارے ایم ایز اور ایم پیز غائبی اشاروں پر روبوٹ کی طرح چلتے ہیں۔ایک دوسری کی جاسوسی کرتے ہیں اور کبھی بھی ایک شخص اکیلا کسی سے ملاقات نہیں کرسکتا اس کے سر پر گسٹاپو کی طرز پر دوسرا مسلط ہوتا ہے۔بس یہی ان کی طاقت ہے جسے عمران خان نے توڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے وہ آج بھی اس شہر میں موجود ہے جہاں کبھی کوئی دوسرا قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔
اب میں اپنے اس خدشے کی طرف جاتا ہوں۔تین روز پہلے جناب زرداری ایک معاشی دہشت گرد کی صورت میں ہمارے سامنے لائے گئے۔وہ مسئلہ بی بی سی کے شور میں بڑے آرام سے فراری بن گئے وہ اور ادی دونون ایک عرب ملک چلے گئے ہیں جہاں ان کی زندگی کا شاہانہ رنگ اپنی آن بان سے موجود ہے۔معاف کیجئے اگر وہ دہشت گردتھا(معاشی) تو اسے جانے کیوں دیا گیا؟اس نے اپنی زبان سے پاک فوج کو للکارا؟اس کو اس کی کیا سزا دی گئی؟الطاف حسین نے گالیاں دیں ؟کیا ہوا۔میں بس اپنی قوم سے یہی کہوں گا کہ کچھ بھی نہیں بدلنے والا زرداری نہ ہو گا تو بلاول آ جائے گا ادھر شہباز شریف کے فرزند کی انگلیاں ابا سے بھی تیز چلتی ہیں۔قوم کو امید ملتی ہے خوش ہوتی ہے اور پھر مایوس۔ضرب عضب تب ہی کامیاب ہو گی جب آپ ضرب غضب کی طرف نکلیں گے۔عجیب ملک ہے عجیب بدمعاشی ہے اہم ترین ادارے کو بدنام کرو اور چلتے بنو۔اب بی بی سی ہمارے مسئلے حل کرے گی۔جناب نواز شریف نے زرداری سے قطع تعلق کر لئے۔
یاد رکھئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،فوج کے بارے میں زرداری نے جو کچھ کہا اور فوج کے بارے میں میاں صاحب ماضی میں جو کچھ کہتے رہے ہیں اس میں فرق ہی کیا ہے؟ہمیں بی بی سی کی رپورٹوں کے لولی پاپ سے نہ بہلایا جائے۔باغبانپورے کا مولوی سراج کا ذوالفقار علی بھٹو پر لازوال اعتماد تھا وہ اسے اپنا نجات دہندہ سمجھتا تھا لیکن ہم وہ اندھ دھند اعتماد رکھنے والے نہیں ہیں۔قوم کو موجودہ بطل سے بڑی امیدیں ہیں۔احتساب ہمیشہ بے رحم ہوتا ہے۔وہ شوگر کے مرض بلند فشار خون کو نہیں مانتا۔سچی بات ہے جب یہ خبر پڑھی کے دونوں بہن بھائی دبئی چلے گئے ہیں تو دل کو دھچکہ لگا۔قوم کے اربوں نہیں کھربوں ہضم کرنے والے اس طرح نکل جائیں گے تو معاف کرنا عذیر بلوچ کو کیوں پکڑا،صولت میرزا کو کیوں پھانسی دی؟یہاں کا دستور نرالا ہے پچاس سو روپے کے چور کو چوک میں لمیاں پاء کے مارتے ہوئے اور جنہوں نے اربوں کھربوں ڈکارے ہیں انہیں سیلوٹ۔یہ نہیں چلے گا۔
حضرت علی نے فرمایا تھا کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے ظلم کا نہیں۔٦٨ سال ہو گئے ہیں اس ملک میں کفر اور ظلم کے نظام دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں،شائد خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اور اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ پاکستان کے غریب عوام جب لاشیں اٹھا رہے تھے یہ لوگ اس سرزمین کی عیاش گاہ دبئی چلے گئے کسی نے نہیں روکا قائد اعظم ایئر پورٹ پر اس لئے کتی چوراں نال ملی گئی اے ۔اے سپاہ سالار محترم!ذرا کھچ کے رکھو۔