تحریر : ظہور دھریجہ اخبار پڑھنا میری کمزوری ہے، روٹی نہ ملے برداشت کر لیتا ہوں، اخبار نہ ملے سخت بے چین ہو جاتا ہوں۔ پچھلے دنوں اخبارات دیکھ رہا تھا ایک قومی اخبار میں شائع ہونیوالی ایک تصویر پر میری نظر پڑی، ننگے پائوں ایک شخص ہے ، اس کے ہاتھ میں تصویر ہے ، تصویر قدرے باریک ہے، غور سے دیکھا تو تصویر میں ذوالفقار علی بھٹو ایک شخص کے ساتھ ننگے پائوں پیدل چل رہے ہیں ، فوراً ذہن میں خیال آیا یہ کیا ماجرا ہوگا؟ تصویر کے نیچے کیپشن پڑھا تو اس پر لکھا تھا۔ یہ میرے عظیم قائد ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ میری جوانی کی تصویر ہے ، آج 18 اکتوبر 2008ء کو اپنے قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی لخت جگر محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبال کیلئے کراچی ایئر پورٹ پر ننگے پائوں بھٹو شہید کے اُس واقعے کی یاد تازہ کرنے آیا ہوں ، جب برسوں پہلے عین جوانی میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے گیا۔
بھٹو نے فوراً میرے پائوں کی طرف دیکھا، ارے تم ننگے پائوں؟ میں نے کہا جی سئیں ! بھٹو نے کہا تم کون اور ننگے پائوں کیوں ؟ میںنے کہا ،غریب ہوں ، بھٹو کی آنکھوں میں آنسو آئے ، فوراً جیب سے بہت سی رقم نکالی اور مجھے دیدی ، یہ لو فوراً جوتے خریدو، میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے، میں چلا، پیچھے سے آواز آئی، ٹھہرو، مُڑ کر دیکھا تو بھٹو جوتے اُتار رہے تھے ، وہ فوراً اپنی نشست سے اُٹھے اور میرے ساتھ ننگے پائوں چلنا شروع کر دیا، دو باتیں مجھے یاد ہیں جو انہوں نے میرے ساتھ چلتے ہوئے کیں ، بھٹو نے کہا تم میرے پاس جس طرح آئے لازم ہے میں بھی ایساکروں ، پھر مجھ سے ہاتھ ملایا ،اللہ حافظ ، جائو اچھے سے جوتے خریدو۔ یہ سطور لکھتے ہوئے آج مجھے وہ عظیم سیاسی قائد یاد آ رہا ہے جسے بیدردی کے ساتھ سولی پر لٹکا دیا گیا ۔بھٹو کی آج کی جماعت میں آج کوئی بھٹو جیسا یا اس کی سوچ جیسا کوئی لیڈر موجود ہے ؟ یہ آج کا سوال ہے ۔ 4 اپریل بھٹو کی برسی کا دن ہے۔ قومی رہنمائوں کے تہواران کی یاد کے ساتھ ان خیالات کے اور نظریات کی تجدید کے حوالے سے منائے جاتے ہیں اگر قومی رہنمائوں کے نظریے پر عمل نہ ہو تو پھر تہوار منانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ ہزار اختلاف کے باوجود یہ تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیںکہ ذوالفقار بھٹو ایک قومی رہنما تھے ”غریب کو اپنے ہونے کا احساس” دیکر بلا شبہ بھٹو نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ۔ بھٹو کی شخصیت کے کئی پہلو تھے۔ ان کاسرائیکی وسیب سے محبت کا حوالہ بہت اعلیٰ ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نسل در نسل اسمبلیوں میں جانے والے سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں کو اپنے خطے کی تہذیب’ ثقافت اور تاریخ کا علم نہ ہے مگر بھٹو اس سے واقف تھے وہ سرائیکی کی جداگانہ شناخت کا ا دراک رکھتے تھے۔
آج ہمیں بہت دُکھ ہوتا ہے کہ بھٹو کی سیاسی میراث کے وارثوں نے ان کے اس پہلو کو فراموش کر دیا۔آج پاکستان خصوصاً سرائیکی وسیب کے لوگ جن عذابوں کا شکار ہیں ، اس کی ذمہ داری پی پی کی موجودہ قیادت پر عائد ہوتی ہے، پی پی مہاجر صوبے کے خوف سے سرائیکی صوبے کو منجھدار میں چھوڑ کر کنارے لگ گئی، کیا اس کا نام وفا شعاری ، اصول اور نظریہ ہے؟ کیا یہ بھٹو کا پیغام ہے؟ پاکستان کی سیاست بھٹو کے تذکرے کے بغیر نا مکمل اور ادھوری ہے ، بھٹو ایک شخص نہیں ایک سوچ کا نام ہے ۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد شاہ نواز بھٹو(1888 ئ1957-ئ) سندھ کے زمیندار اور با اثر سیاست دان تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ خورشیدبانو شاہ نواز کی دوسری بیوی تھیں۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھیں’اصل نام لکھی بائی تھا لیکن شادی سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اسلامی نام خورشید رکھا گیا تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم بمبئی سے اور اعلیٰ تعلیم برگلے یونیورسٹی کیلی فورنیا اور اوکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ سائوتھمپٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے لیکچرر بھی رہے۔ 1962ء میں آپ کو وزیر خارجہ بنایا گیا تو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ستمبر1965ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران میںذوالفقارعلی بھٹو نے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے مسئلے پر ایک شاندار تقریر سے اقوام عالم کو ہم نوا بنایا جب جنوری 1966ء میں پاکستان اور بھارت نے ”اعلان تاشقند” پر دستخط کیے تو یہیں سے ایوب خان اور بھٹو کے اختلافات کا آغاز ہوا۔ آپ وزارت خارجہ سے مستعفی ہو گئے۔
وزارت خارجہ سے علیحدگی کے بعد 30نومبر1967ء کو آپ نے اپنے ہم خیال احباب کے ساتھ مل کر لاہور میں ”پاکستان پیپلز پارٹی” کی بنیاد رکھی اورغریبوں کے لئے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ دیا ۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو بنگالیوں کے حقوق اور بنگالیوں کی قومی و ثقافتی شناخت کے نعرے پر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی، جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا، مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک شروع ہوئی بھارت نے بنگالیوں کا ساتھ دیا 16دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور سقوط ڈھاکہ کا واقعہ رونما ہوا، بقیہ پاکستان کا اقتدار بھٹو کے حوالے ہوا، بھٹو نے جنگ سے تباہ حال معیشت کو سہارا دیا، شملہ معاہدے کے ذریعے بھارت سے 90ہزار جنگی قیدی آزاد کرائے،1974ء میںسلامی سر براہی کانفرنس کرائی،1973ء میں سر زمین بے آئین کو آئین دیا، غریب کاشتکاروں اور مزدوروں کیلئے قوانین بنائے اور امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کی جس کی پاداش میں بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا، بھٹو کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا اور اسی فوج، جسے بھٹو نے بھارت کی قید سے آزاد کرایا تھا کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو تختہ دار تک پہنچا کر 4اپریل 1979ء کوپھانسی دیدی۔
سرائیکی وسیب کے حوالے سے غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا سرائیکی وسیب سے جذباتی لگائو تھا، ان کو سندھی کا شاید ہی کوئی شعر یا د ہو لیکن بہت سی سرائیکی کافیاں انہیںزبانی یاد تھیں، ذوالفقار علی بھٹو ایوان وزیر اعظم میں خصوصی محافل سجا کر پٹھانے خان سے صرف سرائیکی کافیاں سنتے۔ سرائیکی سے محبت کا اس سے بڑھ کر کیا اظہار ہو سکتا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو یقین ہو چکا تھا کہ ضیاء الحق کورٹ اسے نہیں چھوڑے گی تب بھی آمر سے زندگی کی بھیک مانگنے کی بجائے سرائیکی زبان سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے عدالت میں سرائیکی زبان کی قدامت عظمت اور مٹھاس کو زبر دست الفاظ میں خرا ج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ سرائیکی شعر سنائے” درداں دی ماری دلڑی علیل اے” سنائے یا پھر اس سے پہلے جیل میں ہر وقت ان کی زبان پر ”کیکوں حال سنْاواں دِل دا،کوئی محرم راز نہ مِلدا”کے بول ہوتے ۔ سوال یہ ہے کہ آج جو پیپلزپارٹی ہے اس میں ذوالفقار علی بھٹو کی کوئی ایک جھلک بھی موجود ہے۔
ہم کبھی پیپلز پارٹی کے رکن تھے نہ ہیں اور نہ ہی ہوں گے کہ ہماری پہچان سرائیکی قومی شناخت اورہماری سیاسی سوچ سرائیکی قومی سوال ہے ۔ اس سوال کا ادراک اقتدار پر ستوں کو نہیں ۔ پیپلز پارٹی کے نہ ہوتے ہوئے ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیںکہ ذوالفقار علی بھٹو نے بر سر اقتدار آنے کے بعد بہاولپور کے جلسہ عام میں بہاولپور صوبے کے مطالبے کو مسترد کیا ۔ اس وقت بہت سے لوگوں کو یہ بات ناگوار گزری ہوگی لیکن آج ہم سمجھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سرائیکی قوم پر احسان کیا اور سرائیکی قومی شناخت قائم کرانے میں سرائیکی وسیب کی مدد کی۔ ذوالفقار علی بھٹو واحد لیڈرتھے جس نے 1974ء میں ملتان بہاولپور اور دیرہ اسماعیل خان میں یونیورسٹیاں قائم کر کے سرائیکی صوبے کا جغرافیہ طے کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو واحد لیڈر تھے جنہوں نے سرائیکی صوبہ محاذ کے رہنما ریاض ہاشمی مرحوم کو خصوصی طور پر اپنے گھر المرتضیٰ لاڑکانہ میں بلوا کر یہ کہا کہ تم لوگ بہاولپور کی بجائے اپنی سرائیکی قومی شناخت کے مطابق تین ضلعوں کی ” صوبڑی” کی بجائے دیرہ اسماعیل خان تک صوبے کا مطالبہ کرو، ورنہ مر جائو گے۔ ریاض ہاشمی مرحوم کو سمجھ آئی اور انہوں نے فوری طور پر بہاولپور صوبہ محاذ ختم کر کے سرائیکی صوبہ محاذ بنایا اور اس کے سرائیکی قومی شناخت پر مثبت نتائج بر آمد ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا سرائیکی وسیب سے یہ حسن سلوک اور محبت کے سینکڑوں شواہد موجود ہیں جبکہ آج بھٹو کہ نام پر سیاست کرنے والے کیا کررہے ہیں؟ آج حالت یہ ہے سرائیکی قومی شناخت کو تقسیم کرنے والے آصف زرداری ن لیگ سے اندرسے سودے بازیاں کر رہے ہیں۔ کیا ایسے اقدامات سے ذوالفقار علی بھٹو کی روح خوش ہوگی؟ یہ بھٹو کی سالگراہ کا اہم سوال ہے اور پیپلزپارٹی سرائیکی وسیب کو جنوبی پنجاب کا نام دینے پر بضد ہے۔
آج پاکستان جن حالات سے دو چار ہے ، ہر طرف بم دھماکے ، دہشت گردی کے خون آشام مناظر نظر آ رہے ہیں ۔ ان تمام کا تعلق بھٹو کی پھانسی کے بعد برسر اقتدار آنے والے ضیاء الحق کی طرف سے بوئی گئی نفرتوں کی اس فصل سے ہے جو بے قصور پاکستانیوں کے حصے میں آئی ہے ۔بھٹو نے جمہوری اور عوامی کلچر فروغ دیا اور ضیا الحق نے فرقہ ورانہ مذہبی کلچر کو دیا ۔ بھٹو نے امریکا کو للکارا ، ضیا الحق نے پاکستان کی آزادی و خودمختاری کو امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا۔ بھٹو کی سالگرہ کے دن کے موقعہ پر جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پاکستان میں جو انتہا پسند لشکر برسر پیکار ہیں ،در اصل فرقہ ورانہ گروہ ہیں ، اس جنگ کو ختم کرنے کیلئے دہشت گردی کے اسباب کو ختم کرنا ہو گا۔ اس مقصد کیلئے ضیا الحق کی بچھائی گئی فرقہ ورانہ بارودی سرنگیں ختم کرنا اور مسلکی ممالک ایران ، سعودی عرب وغیرہ کی طرف سے مسالک کو مضبوط کرنے کے نام پر آنے والے سرمائے کو روکنا ہو گا۔