پاکستان میں 28 مئی 1998ء کو سولہواں یوم تکبیر منایا جارہا ہے۔ یہ دن اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ یہی وہ وقت تھا جب کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ملک دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنا۔1974ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت کے حصول پر مجبور کیاجس پر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جوہری مشن کا سربراہ مقرر کیا اور پاکستان نے انیس سو چوراسی میں غیر اعلانیہ طور پر ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی۔
پاکستان کی جوہری پالیسی ہمیشہ پرامن مقاصد کے لئے رہی، لیکن بھارت نے مئی انیس سو اٹھانوے میں دوبارہ ایٹمی دھماکے کئے تو پاکستان کے لئے ایٹمی تجربہ ناگزیر ہوگیا اور امریکی صدر بل کلنٹن اور دیگر یورپی ممالک کی دھمکیاں اور لالچ بھی پاکستان کو ایٹمی تجربات سے نہ روک سکے اور پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے ایٹمی صلاحیت والا ملک بن گیا۔بھارت، اسرائیل اور دیگر ممالک کے ایٹم بم بنانے پر کسی کو کوئی پریشانی نہیں تھی مگر جب پاکستان نے پرامن ایٹمی پروگرام مکمل کیا تو دنیائے کفر میں کھلبلی مچ گئی اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کے پراپیگنڈاکا آغاز کر دیا گیا۔
پاکستانی سائنسدانوںنے یہ سارا کام نجی وسائل سے مکمل کیا کیونکہ اس بات کا سب کو اندازہ تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس سلسلہ میں ہماری مدد نہیں کرے گی۔ 11 مئی 1998 کو بھارت نے پوکھران میں تین ایٹمی دھماکے کیے اور پھر 13 مئی کو دوبارہ دو دھماکے کر کے اس نے خود کو ایٹمی طاقت ثابت کر دیا۔ انڈیا نے پانچ دھماکے اس لئے کیے تھے کہ اسے یقین تھاکہ ان دھماکوں سے پاکستانی عوام اور فوج کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور پھر وہ اکھنڈ بھارت کا اپنا خواب پورا کر سکیں گے مگر یہ محض ان کی خام خیالی تھی۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوںنے اس وقت کے بھارتی حکمرانوں اور سیاستدانوں کو دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا۔
جو دن رات پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دیتے نہیں تھکتے تھے۔ 13 مئی 1998ء کو بھارت کی جانب سے کئے جانے والے دھماکوں کے وقت پاکستان ایٹمی کمیشن کے چئیرمین ڈاکٹر محمد اشفاق ملک سے باہر تھے، لہٰذا اس وقت ہونے والے ہنگامی اجلاس کی صدارت ٹیکنیکل ممبر ڈاکٹر ثمر مند مبارک کرتے تھے اور وہی پاکستان کے ایٹمی ٹیکنیکل پروگرام کے انچارج بھی تھے۔ میاں نواز شریف صاحب جو اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم تھے ‘نے فوری اجلاس بلایا اورسائنسدانوں سے رائے طلب کی تو انہوں نے کہا کہ ہم پوری تندہی سے کام کر کے اس کا جواب ضرور دیں گے’ چاہے کچھ بھی ہو جائے اور پھر بلوچستان کے ضلع چاغی میں بھورے رنگ کی ایک پہاڑی جس میں تین سال سے انتھک محنت سے سرنگ تیار کی گئی تھی۔
وہاں سارا سیٹ اپ قائم کیا گیا اور سائنسدانوں کا یہ صابر گروہ پوری جانفشانی سے اس تپتے علاقے میں کام پر جت گیا۔تپتی دوپہریں اور صحرائی علاقے کی مشکلات ان کے کام میں روڑے نہ اٹکا سکیں اور نہ ہی بھوک و پیاس ان کے عزم کی دیوار کو ہلا سکی۔ اسی طرح مسلسل کام کرتے کرتے آخر 28 مئی کا وہ پرمسرت موقع آ گیا جسکی تعبیر میں پاکستان کی بقا چھپی تھی۔ ایٹمی سائنسدانوں کی 18 سے 20 گھنٹے روزانہ کی محنت رنگ لے آئی اور قوم کی آنکھوں میں پھر سے زندگی کے چراغ روشن ہوئے۔ پاکستانی سائنسدانوں کی یہ وہ قربانیاں تھیں جنہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ہر سال یوم تکبیر پر ملک بھر میں پروگراموں کا انعقاد کیاجاتا ہے۔ آج کے ان حالات میں کہ جب بھارت میں ایک بار پھر ہندو انتہا پسند بی جے پی کی حکومت ہے۔
Narendra Modi
ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے سے ان کالب ولہجہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے ۔ ملک میں منظم منصوبہ بندی کے تحت فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی اورفکری انتشار کو پروان چڑھایا جارہا ہے ‘ جماعةالدعوة نے قوم کو متحد و بیدار کرنے اور ملک میں اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کیلئے ہفتہ تکبیر مہم شروع کر رکھی ہے جس کے تحت لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد، کراچی سمیت پورے ملک میں تکبیر کنونشن، جلسوں اور کانفرنسوں کا اہتمام کیاجارہا ہے جس میں تمامتر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بہت بڑی تعداد شرکت کر رہی ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں چوبرجی چوک میں جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جس میں امیر جماعةالدعوة حافظ محمد سعید، لیاقت بلوچ، پیر ہارون گیلانی، حافظ عبدالغفار روپڑی، قاری یعقوب شیخ ،عبداللطیف سرا ایڈووکیٹ،محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے ٹیم ممبرڈاکٹر محمد اقبال واہلہ اور دیگر رہنمائوںنے خطاب کیا۔اس موقع پر شرکاء میں زبردست جو ش وجذبہ دیکھنے میں آیا۔
ہزاروں افراد کی طرف سے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے حق میں زبردست نعرے بازی کی گئی۔امیر جماعةالدعوة حافظ محمد سعیدنے اپنے خطاب میں کہاکہ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی وجہ سے بھارت پاکستان کی جانب میلی نگاہ نہیں ڈال سکتا۔ اندرا گاندھی نے 17دسمبر 1971ء کو لوک سبھا میں کہا تھاکہ ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میںڈبو دیا ہے۔ یہ پورے پاکستان کیلئے پیغام تھا کہ وہ مغربی پاکستان میں بھی یہی کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹم بم بنانے کا آغاز کرتے وقت کہا تھاکہ ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ اسی طرح انہوںنے کشمیر کی آزادی کیلئے ہزار سال تک جنگ لڑنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
ہم پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آج آپ اپنے قائد کی پالیسی پر چل رہے ہیں یا ان سے بے وفائی کر رہے ہیں؟۔انہوںنے کہاکہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ضیاء الحق نے ا س پروگرام کو آگے بڑھایااور ایٹم بم و میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششیں جاری رکھیں۔بعد ازاں جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے اور کانگریس و بی جے پی سمیت تمام بھارتی تنظیموںنے پاکستان کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دینا شرو ع کیں۔ یہ وہ وقت تھاکہ جب نواز شریف پر امریکی صدر کلنٹن اور دیگر یورپی ممالک نے دبائو بڑھایا، لالچ دیے اور دھمکیاںد ی گئیں لیکن اللہ کی توفیق سے نواز شریف حکومت نے ایٹمی دھماکے کر دیے۔یہ زبردست اور جرأتمندانہ فیصلہ تھا۔انہوںنے کہاکہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نقصانات سے دوچار کرنے کی خوفناک منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں۔
روس کے ٹکڑوں میں تقسیم ہونے پر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایٹمی قوت سے نوازا’ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوںکی شکست سے ان شاء اللہ کشمیر آزاد ہو گا۔ بھارت میںبسنے والے تیس کروڑ مسلمان دوقومی نظریہ کی بنیاد پر متحد ہوں گے، پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی پاکستان بنے گا اور پورے عالم اسلام کی قیادت کرے گا۔جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہاکہ پاکستان اللہ کے فضل وکرم سے ایٹمی قوت ہے اور اسی صلاحیت کی بنیاد پر دشمن قوتیں براہ راست حملہ کرنے کی بجائے اسے نظریاتی بنیادوں پر اندرونی وحدت کو انتشار میں تبدیل کر کے اسکے وجود کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔
America
امریکہ و یورپ کو بھارت و اسرائیل کے ایٹم بم سے نہیں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سے پریشانی ہے۔ وہ پاکستان کے عوام کو آپس میں لڑا کر اور اسے نظریاتی بنیادوں پر کمزور کر کے اسکے وجود کو غیر مستخکم کرنا چاہتے ہیں ۔ملک میں دفاع پاکستان کے لئے اتحاد ویکجہتی بہت ضروری ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اللہ تعالیٰ کی بہت بڑاانعام ہے۔پوری پاکستانی قوم کو اس عظیم نعمت کے ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور دفاع پاکستان کو اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے ہر فر د کو بھرپور کردار اداکرنا چاہیے۔