آر ون دھتی رائے اور کشمیر

kashmir war

kashmir war

جماعت اسلامی کی محنت’ نواز شریف کے تعاون اور میڈیا کی بروقت توجہ نے نوے کی دہائی میں ”یوم یکجہتی کشمیر ”منانے کے عزم کو عملی جامہ پہنادیا۔اور بعدازاں اسوقت کی وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے ملکی ماحول کو بھانپتے ہوئے پانچ فروری کو سرکاری تعطیل قرار دے دیا۔ تاریخ کے سینے پر رقم ہے کہ جب محمد علی جناح نے محسوس کیا کہ بھارت کشمیر میں مداخلت کا ارادہ رکھتاہے تو انہوں نے پاکستانی افواج کے فرنگی کمانڈر انچیف کو حکم دیا کہ وہ قبل از وقت کاروائی کر کے بھارتی افواج کی کشمیر میں ہوائی اور زمینی مداخلت کو ناکام بنا دے۔لیکن پاکستان افواج کے سربراہ جنرل ڈگلس گریسی نے گورنر جنرل کے احکامات بجالانے سے انکارکردیا۔اور اسی دوران30 اکتوبر 1947کوپاک بھارت افواج کے (مشترکہ)جوائنٹ کمانڈر فیلڈ مارشل کلاڈ آکن لیک دہلی سے بذریعہ ہوائی جہاز لاہور پہنچ گئے۔اور انہوں نے گورنر جنرل سے بات کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ دونوں اطراف کی افواج میں انگریز آفیسرز کی بھاری تعداد موجود ہے اور اگر پاکستان بھی کشمیر میں اپنی فوجیں اُتارتاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانوی سپاہی ایک دوسرے کے خلاف جنگ لڑیں گے اور ایسے اقدام کی اجازت میں ہرگزنہیں دوں گا آکن لیک نے مدعابیان کیا اور محفل برخاست ہوگئی۔لیکن کشمیری آج تلک اس کی قیمت اداکررہے ہیں۔لہذا 31اکتوبر کو بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہوگئیں۔اس وقت قبائل مسلمانوں کے لشکر اور کچھ مزید مسلم جوان سری نگر کے قریب پہنچ گئے۔اور پھر وہ وقت آیا کہ بھارت خود مسلئہ کشمیر  اُٹھا کرتصفیہ کیلئے سلامتی کونسل میں لے گیا۔1948اور1949کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھارت کے وزیراعظم پنڈت لال جواہرنہرو نے بھی تسلیم کیاجس میں کشمیرکاحق خودارادیت تسلیم کیاگیاتھااور اس کشمیری عوام کی رائے کے مطابق حل کرنے کا تہیہ کیاگیاتھا۔لیکن آج تلک بھارت ان قراردادوں پر ٹال مٹول سے کام لیتاآیاہے اور تاحال اس کی ڈھٹائی جاری ہے۔رہ گئی بے چاری اقوم متحدہ تو اسے کسی نے ”مردہ قراردادوں”کا قبرستان قراردیاہے۔ہاں اگر مسلئہ انڈونیشیاکے لوگوں کو ہوتو مشرقی تیمور معرض وجود میں آسکتاہے اور اگر مسلئہ سوڈان کے لوگوں کاہوتو اس ریفرنڈم کی نگرانی جمی کارٹراور سینیڑکیری لوگر کرسکتے ہیں لیکن اگرمسائل فلسطین کے ہوں یا کشمیر کے انسانوں کے تو انہیں قابل توجہ ہی نہیں گرداناجاتا۔حل تو کجا’بارک حسین اوبامہ جب انڈیا کی آب وہوا میں اترے تھے تو کشمیر کا نام ہی ان کے ذہن سے مائوف ہوگیاتھاتوپھر وہ(نام کشمیر) ان  لبوں  پر کیسے آتا۔کم وبیش دس لاکھ بھارتی فوجی اس وادی میں دندنارہے ہیں۔اسی کی دہائی سے لے کر اب تک تقریباایک لاکھ کشمیری آزادی کی خاطر جان کا نذرانہ دے چکے ہیں اور آج تلک وادی کی  بہت سے مائیں شہادت کی خاطر بیٹے جنم دے رہی ہیں ۔ایک دو نہیں یہ پورے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی زندگی کا فیصلہ ہے جسے انڈیا محض سبسڈی دے کر اور افواج کے جال بچھاکر ہرگززیر نہیں کرسکتا۔بھارتی افواج کے سپہ سالار وی کے سنگھ نے بھی ببانگ دہل اس بات کا اظہار کیاہے کہ ریاست جموں وکشمیر کی قسمت کا فیصلہ سیاسی طریق پر کیاجائے تو مناسب ہوگا۔کچھ عرصئہ قبل مشہورومعروف مصنف ”آرون دھتی رائے”نے بھی کشمیر کے باسیوں کے حق خودارادیت کی حمایت کااعلان کیاہے۔بھارت میں مسلمانوںکے علاوہ بھی لاکھوں ایسے افرادہیں جو کشمیری عوام کے جذبات کی قدرکرتے ہیں اور اس تنازعہ کا حل ریاست جموںوکشمیرکی گود میں پلنے والوںکی اُمنگوں کے مطابق کرنے کے حق میں ہیں۔آج جب کشمیری بچوں’بزرگوں’اورجوانوںکے بدن پر نہ قبامحفوظ ہے اورنہ بناتِ پاکیزہ کے سروںپرآنچل اور ردا۔تو ایسے میں بالعموم ہر انسان کا اور بالخصوص ہر مسلمان کا فرض بنتاہے کہ ”یوم یکجہتی کشمیر”کے موقع پر اور اس کے مابعد بھی اس خطہ کے انسانوں کے حقوق اور آزادی کی خاطر اپنی اپنی سطح پر آواز بلند کریں اور مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ ایک ماں کی ممتاکی مانند اپنے دکھ بھلاکر کشمیروفلسطین کے مسلمانوں کی آزادی کے لیئے پرامن موئثرکردار اداکریں جواپنے ہی گھرمیں غلام بنادیئے گئے ہیں۔جلیل القدر صحابی ‘داماد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ تعا لی عنہ کافرمان ہے:کفرکی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں”۔لہذا ہمارا ایمان ہے کہ وہ دن دور نہیں جب کشمیر وفلسطین کے انسان طوق غلامی سے نجات پالیں گے۔ء انشااللہ۔سمیع اللہ خان