حضرت علی کافرمان ہے”دوستی اور دشمنی کا فیصلہ رابطہ کرتاہے”۔ شیرخدا نے فرمایا”اگرآپس میں رابطہ نہ ہو تو آپ کا دوست بھی دشمن بن جاتاہے اور اگر آپس میں رابطہ قائم رہے تو بڑے سے بڑا دشمن بھی آپ کا رفیق(دوست) بن سکتاہے”قبائلی علاقوں سے ہمارے تعلقات اور وہاں کے لوگوں سے میل جول رکھنانہ ہماری حکومت کی ترجیح رہی ہے اور نہ ہی ہم عوام نے ان محروم علاقوں کی بازگشت پر کان دھرے ۔ہم گیس کی لوڈشیڈنگ’بجلی’اور دیگر قیمتوں پر سڑکوں پر آجاتے ہیں مگر اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر کان پر جوں تک نہیں رینگتی شاید ہمارا ایمان کمزورہوچکاہے۔حدیث مبارک کا مفہوم ہے ”مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ۔جب جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم اس کا درد محسوس کرتاہے”۔مجھے نہیں معلوم کہ آج جو شور مچ رہاہے وہ سرزمین بلوچستان کی جدائی کے خدشے سے ہے یا وہاں پر آباد مسلمانوں کی تکالیف کی وجہ سے۔ اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد سیاسی کشتی پر مسلط آمر نے ندامت آمیز لہجہ اختیارکرنے کے بجائے تنائوکو مزید ہوادی۔پھر جمہوریت کی کشتی کے شہہ سوار اُسے اپنی سواری کو باندی بناکررکھنے پر تذبذب کا شکار نظر آئے ۔عوام بھی بے صبر۔پھر ہوا یوں کہ چہرے بدل گئے۔
نظام میںبھی ہلکی پھلکی تبدیلی محسوس کی گئی ۔ جن کے دم گھٹ رہے تھے چند لمحات کیلئے انھیں سکون ملا۔اور پھروہی کیفیت ‘وہی دکھ’وہی بے روزگاری کاغم’وہی قتل وغارت’ویسی ہی تنی ہوئی گردنیں’رعونت بھرے لہجے اور بہت کچھ ‘جسے ضبط تحریرمیں لایاجائے تو اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے۔لیکن تبدیلی کے خواہاں عوام واصلاح پسند لوگوں کی جھولی خالی ہی رہی۔ اور اُدھراورنج کائونٹی کیلییفورنیا سے منتخب ہونے والے بے لگام ممبرکانگریس’ڈاناروہرابیچرنے امریکی کانگریس میں بلوچستان کے حق خودارادیت کے بارے میں قرارداد پیش کردی۔اسکے حال ہی میں دیئے گئے ایک انٹرویوکے بارے میں”اورنج کائونٹی ویکلی”کا رپوٹرآرسکاٹ موکسلی رقمطرازہے”جس باشعور شخص نے بھی ڈاناروہرابیچرکی پرفارمنس ٹی وی پر دیکھی وہ بخوبی اندازہ کرسکتاہے کہ اس آدمی نے سیاسی گفتگو میں پستیوں کا ایک نیاباب رقم کردیاہے”۔لیکن اس سے درخوراعتناہمیں یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ اسے یہ جراء ت کیسے ہوئی ۔آخرکچھ تو ایساویساہے جس کے بل بوتے پر وہ بول رہاہے۔اس میں استعماری قوتوں کی للچائی ہوئی نظروں کے ساتھ ساتھ ہماری کوتاہیوںاور لاپرواہیوں کا بھی پورا عمل دخل ہے۔
بلوچوں کے مطالبات کا جائزہ لیاجائے تووہ سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ حقائق پربھی مبنی ہیں۔گوادرمیں بلوچ عوام کا تحفظ۔نواب اکبربگٹی کے قاتلوں کا ٹرائل’لاپتہ افراد کی بازیابی’سرکاری تحویل میں موت پاجانے والے افرادکے لواحقین کی دادرسی’تارکین وطن قبائلی سرداروں کی واپسی’کنوئیں کی مٹی کنوئیں پرخرچ کرنے کامطالبہ اورطاقت کے استعمال کی نفی۔یہ وہ چیدہ چیدہ مسائل ہیں جن پر ہم عرصئہ درازسے زبانی جمع خرچ کے تحت کام کررہے ہیں۔ہربار” ع غ ش ف ک”کی تختی نہیں سنی جاسکتی ۔ایک انگریز لکھاری کہتا ہے وقت پرلگایاگیا ایک ٹانکہ نوٹانکوں سے بچاتاہے۔ لہذا اب ہمیں نوٹانکیں لگانے پڑیں گے کیونکہ ”پہلاٹانکہ ”لگانے کا وقت ہم نے سیاسی دنگل کی آنکھ مچولی میں گزاردیا۔اور اگر اب بھی توجہ نہ دی گئی تو ممکن ہے قمیض اتنی زخم خوردہ ہوجائے کہ سینے کے قابل ہی نہ رہے۔یاد رکھیئے یہ ”رفو”والا سینہ نہیں بلکہ” جسم والا” سینہ ہے۔ اور جو کوئی بھی بلوچستان کے بارے ہرزہ سرائی کرتاہے وہ ہمارے ”سینے ”سے بال نوچتاہے۔اور ایسے شخص ‘ایسے ملک اورایسی سرزمین کے لیئے ہمارے کیاجذبات ہیں یہ ”میمو”والا میمنہ یا برسوں سے جاری خارجہ پالیسی کا ”محبت بھراسلسلہ ”ہی آپ کو بتا سکتا ہے۔
اگر قبائلی علاقہ جات کی صورتحال کو بہتربناناہے تو ان کی ثقافت’مزاج’اور آب و ہواکے مطابق طرز عمل اپنانا ناگریز ہے۔ قبائلی علاقوں کے مزاج و طبیعت کا مطالعہ کرنے والا لارڈ کرزن جس نے چھ برس تک وائسرائے کی حیثیت سے ہندوستان پر حکمرانی بھی کی کہتاہے”آپ پیارسے ان لوگوں کی گردن اُتارسکتے ہیں لیکن زبردستی انہیں سونے کا نوالہ بھی نہیں کھلاسکتے”۔نئی آفر آئی ہے کہ بلوچ رہنمائوں کے مقدمات واپس لیئے جارہے ہیں۔اس آفر کے بارے میںاہم بلوچ رہنماء یہ کہتے نظرآئے کہ پیشکش کرنے والی شخصیت کو ہم کبھی سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔جناب حربیارمری تو اس صاحب ثروت شخصیت پر بلوچوں کے خون کا الزام تک لگاگئے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ موجودہ خان آف قلات’براہمداخ بگٹی’شاہ زین بگٹی’نواب اخترمینگل سمیت تمام بااثر شخصیات تک پہنچنے کیلئے ماحول سازگاربنایاجائے اور اس کیلئے ایسے ا فراد کوچناجائے جودونوں فریقین کے سامنے اچھامقام رکھتے ہوں۔نیز ڈیڑھ درجن کے قریب حریت پسند تنظیموں سے بھی کسی نہ کسی طور رابطہ کیاجائے۔گو کہ انکی مرکزی قیادت نہیں ہے لیکن ڈھونڈنے سے تو خدابھی مل جاتاہے۔بس سچی لگن’شفاف نیت ‘مناسب اقدامات اور خلوص کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر اب بھی ہم یہ نہ کرپائے تو مجھے دہرانے دیجئے کہ جاوید ہاشمی نے کہاتھا”اگر میرا گھربلوچستان میں ہوتاتومیں آزادی کا اعلان کردیتا”۔آج نہیں تو کل بلوچوں کو ان کا حق دیناپڑے گا۔مگر حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے فی الفور وہاں تعلیم کی بھرمار’سہولیات کے انبار’اسلامی شعائروتعلیمات کا پرچار اور جہالت کاخاتمہ کرنا پاکستان کی وحدت کیلئے نہایت ضروری ہے۔