اسلام آباد: (جیو ڈیسک) اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت گرانے سے متعلق ڈی جی آئی بی سے تحریری جواب طلب کر لیا ہے جبکہ اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ مہران اور حیبب بنک کمیشن کی رپورٹ آئندہ سماعت پر پیش کی جائے، کیس کی مزید سماعت تیئس اپریل تک ملتوی کردی گئی۔ سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق اصغر خان کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ نجی اخبار کے صحافی نے پنجاب حکومت گرانے سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش کردیں۔ عدالت کے طلب کرنے پر ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان بھی پیش ہوئے۔
انہوں نے استدعا کی معاملے کی وضاحت کے لئے انہیں مہلت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ریکارڈ سے کبھی یہ تصدیق نہیں ہو سکتی کہ رقم کس مد میں خرچ کی گئی۔ مذکورہ عرصے کا آڈٹ ہو چکا ہے لیکن رقم خرچ کرنے کا مقصد بیان نہیں کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اخبار کا صحافی آج بھی اپنی خبر پر قائم ہے، یہ بتا دیں کہ پنجاب میں گورنر راج لگنے سے پہلے کتنے پیسے جاری کئے گئے۔ ڈی جی آئی بی نے بتایا کہ ریکارڈ رجسٹر میں ہوتا ہے جو آج دستیاب نہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ طارق لودھی نے پیسے لگائے وہ کہاں ہیں، آفتاب سلطان نے بتایا کہ طارق لودھی لندن میں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ بتادیں کہ کتنے پیسے جاری کئے گئے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔آپ کو پیسہ نوبل کاز کے لئے دیا جاتا ہے ،آپ اسے جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے خرچ کر رہے ہیں۔
جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ جنوری سے جون دو ہزار نو کا ریکارڈ بتائیں، یہ اتنا مشکل نہیں ، ڈی جی آئی بی نے کہا کہ خفیہ اداروں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا، جس پر جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ یہ وائٹ کالر کرائم ہے اسے اسی انداز میں حل کرنا ہوگا۔ عدالت نے ڈی جی آئی بی کو حکم دیا کہ وہ آئندہ سماعت پر رقم کی تقسیم کے حوالے سے اپنا جواب سربمہر لفافے میں داخل کرائیں۔ اس سے پہلے عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ مہران اور حبیب بینک کمیشن کی رپورٹ پیش کریں جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رپورٹس گم ہو گئی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت سے پوچھیں کہ رپورٹس کو پبلک کیا گیا تھا یا نہیں، اگر پبلک نہیں کی گئیں تو کیا وجہ تھی، اور یہ بھی پوچھ کر بتائیں کہ اب رپورٹس کو پبلک کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔