یہ آپ کی انقلاب تعلیمات کا فیضان تھا کہ ذرے سورج بن گئے ، کنکرموتیوں کا روپ دھار گئے، کانٹوں نے پھولوں کی قبا پہن لی، شعلے شبنم بن گئے اور خنجر مرہم ٹپکانے لگے آپ کی نگاہ جہاں جہاں پڑی صبحیں بیدار ہوگئیں ، سورج طلوع ہوگئے اوراُجالوں کی بستیاں آباد ہوگئیں آپ کے مبارک قدم جہاں پڑے ذرے ذرے سے زم زم پھوٹ پڑے، سلسبیل بہہ نکلی اور کوثر کی موجیں اُبلنے لگیںصحرائوں میں گلستان مسکرا اٹھے۔
سیرت النبی و میلاد النبی صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم ایک ایسا قلزم ذخائر ہے جو بے حدو بے کنارہے اگر آسمان کی ہر کہکشاں ، کہکشاں کے ہر ستارے ، ستارے کی ہر لو، سمندر کی ہر موج، دریا کی ہر لہر، طوفان کے ہر دھارے، بادل کے ہر ٹکڑے، بارش کے ہر قطرے، جنگل کے ہر درخت، درختوں کی ہر ٹہنی، ٹہنیوں کے ہر پتے، پتوں کے ہر ریشے، پھولوں کی ہر پنکھڑی، پنکھڑی کی ہر دھاری، صحرا کے ہر ذرے اور ہوا کے ہر جھونکے کے منہ میں زبانی رکھ کر اسے مدحت آقائے کائنات پر مامور کر دیا جائے …اور… وہ صبح ازل سے لیکر شام ابد تک یہ فریضہ ادا کرتے رہیں تو بھی آپ کی حیات پاک کے کسی ایک پہلو کا اجمالی سا احاطہ بھی نہ کرپائیں وہ مقام ہے جہاں ہر کوئی اعلانِ عجز اور اظہارِ بے بسی کرتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔
لا یمکن الثناء کما کان حقہ بعداز خدا بزرگ توئی قصۂ مختصر کہتے ہیں کہ ”عشق کے قرنیوں میں پہلا قرنیہ احترام رسالتمآب صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم ہے جس دل میں یہ احترام نہیں وہ دل نہیں پتھر کی سل ہے بلکہ اس سے بھی بد تر ہے۔” سیرت و میلاد کا بیان انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے۔ ایک حقیقت شناس عارف نے کہا تھا…باخدا دیوانہ باش وبا محمد ہوشیار …یہ وہ ذکر لذیز ہے جسے ہونٹوں پر لانے سے قبل عشق و محبت کی سر مستیوں و سرشاریوں میں مجذوب شاعر کو کہنا پڑا تھا۔
ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است گداز کے عنبر میں گندھے اور کیفیتوں کے عطر میں بسے شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ کے یہ الفاظ صدیوں سے گُنبدِ افلاک میں گونج رہے ہیں اور قرنوں گونجتے رہیں گے۔ بلغ العلی بکمالہ کشف الدجی بجمالہ حسنت جمیع خصالہ صلو علیہ وآلہ یہ وہ نازک اور حساس موڑ ہے جہاں گولڑہ شریف کے سید زادے پیر مہر علی شاہ ایسی بلند پایہ ہستی بھی ششدرو ساکت رہ جاتی ہے۔
سبحان اللہ ما اجملک ما احسنک ما اکملک کتھے مہر علی کتھے تیری ثنائ گستاخ اکھیاں کھتے جا لڑیاں یہ تو خیر بڑی ہستیاں تھیں یہاں تو غالب ایسے رندباش شاعر کو بھی اس امر کا کامل ادراک ہے کہ بارگاہِ رسالت مآب صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم میں گلہائے تحسین پیش کرنا ہم ایسے کج مج بیانوں کا نصیب کہاں! غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم کہ آں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است آج بھی انسانیت اگر راہ ہدایت اور شاہراہ کامرانی کی متلاشی ہے تو اسے فاران کی چوٹیوں پر طلوع ہونیوالے آفتاب کے سامنے اپنی جھولیاں گدا یانہ اور فقیرانہ پسارنا اور پھیلانا ہوں گی۔
Lahore Data Darbar
داتا کی نگری لاہور میں بعض گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں پر منعقدہ محافل نعت میں فصاحت وبلاغت کے سانچے میں ڈھلاخوبصورت کلام باعمل اور اہل علم ثناء خواںحضرات اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتاہے کہ دلوں کا سارا میل کچیل دھل رہاہے اورروحوں کو فرحت اور تازگی محسوس ہورہی ہے اورہر سننے والے کی آنکھ سے آنسو ئوںکی برسات رم جھم کرتی برس رہی ہوتی ہے ہر شخص باوضو،صاف ستھرے کپڑے پہنے ،خوشبولگائے ادب واحترام کے ساتھ شریک محفل ہوتاہے اوریوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ قدسی صفت لوگوں کی خاص جماعت ہے۔
جوذکر رسولصلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کرنے اور سننے کیلئے عرش سے فرش نشیں ہے اب بھی الحمدللہ ایسی انجمنیں، تنظیمیں اور گھرانے اس دھرتی پر موجودہیں جو اداب واحترام کے تمام تقاضے ملحوظ خاطررکھتے ہوئے محافل کا انعقادکرتے ہیں جس سے روحوں کو ”سرشاری ” اوردلوں کی ویران کھیتوں کو آبیاری نصیب ہوتی ہے بے ادبی اور پامالی کے جھلستے صحرا میں اصلاح محافل نعت کی تحریک ”آبِ زُلال” کی حیثیت سے سامنے آئی ہے البتہ کچھ روز قبل برادر سید احسان گیلانی صاحب کے ذریعہ معلوم ہوا ہے۔
کہ انفرادی سطح پر مفتی محمد خان قادری صاحب اور اب مفتی ضیاء الحبیب صابری صاحب بھی اپنے تئیں کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کے لیکچرز بھی خالصتاً اصلاح محافل نعت کے ساتھ ساتھ اصلاح معاشرہ اور اصلاح احوال پر مبنی ہوتے ہیں احسان دانش نے انہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ ہے غنیمت کہ سسکتے ہیں ابھی چند چراغ بند ہوتے ہوئے بازار سے اور کیا چاہتے ہو گذشتہ دنوں ایک رپورٹ نظروں سے گزری کہ عمرے ”نفلی حج اور حج بدل پر سالانہ دس ارب روپے خرچ ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ سارا کام حصول ثواب اور قرب الہٰی کیلئے ہوتا ہے حاجی اور عمرائی نیت بھی نیک رکھتا ہے۔
اگرچہ یہ سارا سر مایہ غریبوں، محتاجوں ، بیماروں اور یتیموں پر خرچ ہو اور اجتماعی نظام کے تحت ہو اور اس سلسلہ میں ایک قومی مہم کی اشد ضرورت ہے تاہم نفلی حج اور عمرہ پر خرچ ہونے والی رقم جو خالصتاً نیکی اور فلاح کے جذبے کے تحت خرچ ہوتی ہے ضرور ناداروں پر خرچ ہونی چاہئیے سو حج اور ہزار عمرے ایک طرف اگر اس رقم سے کوئی بیمار شفایاب ہو جائے تو اس کی دعا ایک طرف نفلی حج اور عمرہ قبول ہوتا ہے یا نہیں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر کسی بیمار کی دعا کے رد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ دس ارب روپے جو سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔
ایک ارب روپیہ ماہانہ اوسط نکلتی ہے اور تین کروڑ روپے روزانہ ان مریضوں کے علاج پر خرچ ہوں جو ایک مہلک مرض میں مبتلا ہیں جو ڈاکٹروں اور ہسپتال کا بل ادا کرنے سے قاصر ہیں تو اس سے بڑا عمرہ اور حج کیا ہو سکتا ہے یہی لوگ جو محافل نعت پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں اور انکی نیت بے شک نیک ہوتی ہے یہی رقم خود اپنے ہاتھوں سے مریضوں پر خرچ کریں ہسپتالوں میں جا کر ایسے نادار مریضوں کا حال معلوم کریں اور ان کے بل ادا کریں تو سچی بات ہے۔
کہ جس اللہ و رسول صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کو ملنے وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف کا رخ کرتے ہیں اور محفل اس نیت سے سجاتے ہیں کہ ”ہمارے”گھر میں بھی ہو جائے چراغاں یا رسول اللہ صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم تو غریب و یتیم، مظلوم، بیمار کی خدمت کرنے سے اللہ اور رسول صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم انہیں اپنے گھر میں مل جائے گا۔ کسی سسکتے مریض ، کسی کراہتے بیمار اور کسی زندگی سے مایوس شخص کے پارہ پارہ دل پر پھاہارکھنے سے
Mehfil Naat
بڑھ کر حجِ اکبر اور کیا ہو سکتا ہے۔ دل بدست آور کہ حج اکبراست از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است محافل نعت کے انعقاد میں پیش پیش رہنے والوں کو شاید سرکار دو عالم رہبر انسانیتصلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث یاد نہیں ہوگی؟ آپ نے فرمایا ”جو اپنے بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاتا ہے اور پانی پلاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ سے سات خندق دور فرما دیتا ہے دو خندقوں کا درمیانی فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت ہے ” ثناء خواں حضرات اور نقباء محفل پر نوٹوں کی بارش نچھاور کرنے والے شاید یہ بھو ل گئے ہیں کہ رحمت عالمصلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم نے ہی ارشاد فرمایا”بھوکے کو کھانا کھلانا مغفرت واجب کرنے والے اعمال میں سے ہے” دو دو سو بینرز بنانے ، پوسٹرز شائع کرنے، پمفلٹ تقسیم کرنے اور محفل نعت میں آنے والے مہمانوں کو چادریں پہنانے والوں کا دھیان ادھر نہیں جاتا۔
آپ صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا ” جو مسلمان کسی مسلمان کو کپڑا پہناتا ہے تو جب تک پہننے والے کے بدن پر اس کپڑے کا ایک ٹکرا بھی رہتا ہے پہنانے والا اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے ” ایک اور جگہ آپ نے ارشاد فرمایا” مسکین کو اپنے ہاتھ سے دینابُری موت سے بچاتا ہے” حضرت عائشہ فرماتی ہیں ”میرے پاس ایک سائل آیا میں نے اسے کچھ دینے کو کہا پھر بلایا اور دیکھا کہ اُسے کیا دیا آپ نے فرمایا ، تم یہی چاہتی ہونا کہ گھر میں جتنا آئے اور جتنا خرچ ہو اس کا تمہیں علم ہو فرمایا جی ہاں! فرمایا ”حساب کتاب کے پھیر میں نہ پڑو گن گن کر نہ دو ورنہ اللہ تمہیں بھی گن گن کردے گا ” ام المؤمنین حضرت عائشہ ہی سے روایت ہے۔
کہ رحمت عالم صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپصلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم خوف کی حالت میں کانپتے دل کے ساتھ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس گھر آئے آپصلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم نے انہیں اس واقعہ کے متعلق بتایا اور کہا کہ مجھے اپنی جان کے چلے جانے کا خدشہ ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا بخدا! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کریگا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں ناداروں کو کما کر کھلاتے ہیں مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آفات اور مصائب کے موقعوں پر مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں۔
محافل نعت کے انعقاد میں سرگرم رہنے والو! درج بالا حدیث پاک کے ایک ایک حرف کو حرزِ جان اور وردِ زبان بنالیجئے تاکہ معاشرہ حسن معاشرت کی تصویر پیش کرے ہمیں اپنے آس پاس اڑوس پڑوس میں نمودو نمائش کے ذاتی خول سے نکل کر دیکھنا ہوگا کہ کہیں کوئی بھوکا تو نہیں سو رہا، کوئی کسی گلی کی نکڑ پر دوائی کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کی وادی میں تو آہستہ آہستہ نہیں جا رہا؟ کسی غریب کی بیٹی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے حسرتوں کو دل میں لئے بوڑھی تو نہیں ہو رہی؟ کسی کے پاس کتابوں اور یونیفارم کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بچہ ”اوئے چھوٹے” کلچر کا شکار تو نہیں ہو رہا۔
اپنے ماتھوں پر محراب اور سروں پر عمامے سجانے والو! عوام الناس کو محراب و منبر سے خدمت انسانیت ہی کی طرف راغب کرنے والے درسِ قرآن و حدیث دو تاکہ معاشرے میں دکھی ، سسکتی اور بلکتی انسانیت کے زخموں پر کوئی تو مرہم رکھنے والا ہو! محافل نعت کا انعقاد بھی ضرور کروائیں مگر اس کے ساتھ ساتھ بھوکی اور ننگی انسانیت کی ضروریات کا بھی خاص خیال رکھیں یہی اسلام اور یہی معراج انسانیت ہے اور یہی رسولِ رحمت ،رہبر انسانیت صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کا ذریعہ بھی ہے ہمارا کام تھا خوابیدہ دلوں پر دستک دینا اب دیکھیئے کون کون اس پر لبیک کہتا ہے اور کس کس کے حصے میں خوش نصیبی لکھی جاتی ہے؟ کون خوش نصیب اس سعادت سے بہرہ مند ہوتا ہے؟ اور کس کس کے سر پر فلاحِ انسانیت کا تاج سجتا ہے۔