کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے کہ مصداق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے آخرِ کار پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی حتمی منظوری دے ڈالی۔ چار ما ہ سے مسلسل التو ا میں پڑے ہوئے اس مسئلے پر خوب سیاست کی گئی۔ خفیہ ہاتھوں نے دفاعِ پاکستان کونسل کو متحرک کیا اور اس کونسل نے ایسی ایسی دھمکیاں دیں کہ انسان شسدر رہ جائے۔ دفاعِ پاکستان کونسل بزور اپنی مرضی کا فیصلہ مسلط کروانا چاہتی تھی اور پارلیمنٹ کوحتمی فیصلہ کرنے کا اختیار دینے کو بالکل تیار نہیں تھی اصل میں کچھ لوگوں نے یہ تصور کر لیا ہو اہے کہ صرف وہی پاکستان کے ہمدرد اور بہی خواہ ہیں اور باقی سارے لوگ پاکستان کی سالمیت اور اس کے استحکام کے دشمن ہیں لہذ اجو مغلیات ان کے منہ سے نکلیں انھیں موتی سمجھ کر چن لیا جائے۔جلسے، جلوس،دھرنے اور دھمکیاں روز مرہ کا معمول تھے لیکن حکو مت ٹس سے من نہ ہوئی۔ پی پی پی کی حکومت کو امر یکی ایجنٹ، امریکی غلام اور امریکی پٹھو کے خطابات سے نوازا گیا لیکن حکومت اپنے اس موقف پر سختی سے ڈٹی رہی کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کا فیصلہ صرف پارلیمنٹ ہی کریگی اور جو فیصلہ پارلیمنٹ کریگی اسے من و عن نافذ کیا جائیگا اور کسی کو اس فیصلے کی راہ میں روڑے اٹکانے کی قطعا ّ اجازت نہیں دی جائیگی۔مسلم لیگ (ن) اور جمعیت العلمایت اسلام کے بائیکاٹ نے صورتِ حال کو قدرے پچیدہ بنا دیا تھا لیکن آصف علی زرداری نے انتہائی تحمل اور دانش مندی سے صورتِ حال کو سنبھالا دیا اور دونوں جماعتوں کے تحفظات کو دور کر کے انھیں بائیکاٹ ختم کرنے پر آمادہ کیا۔ پاکستانی سیاست میں شائد پہلی بار ہوا ہے کہ پارلیمنٹ کو اتنا با اختیار بنا یا گیا ہے۔
حالانکہ اسی پارلیمنٹ کو یار لوگ ربر ٹیمپ کے طعنوں سے بھی نوازتے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ اسی پارلیمنٹ نے اٹھارویں انیسویں اور بیسویں آئینی ترامیم متفقہ طوور پر منظور کر کے اپنی افادیت اور اہمیت کا واضح ثبوت دیا ہوا ہے اور اب نیٹو بحالی کی متفقہ قرارداد کی منظوری اس بات کی غماض ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ پاکستان کی تاریخ کی سب سے فعال پارلیمنٹ ہے اور اس نے جتنے بڑے بڑے فیصلے کئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ہمارے ہاں ایک رواج روز بروز تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ جو بھی پا رلیمنٹ معرضِ وجود میں آئے اسے ربر سٹمپ کے نام سے موسوم کر دیا جائے۔ اپوزیشن تو ہر پارلیمنٹ کو بڑے دھڑلے سے ربر سٹیمپ کے اعزاز سے نوازتی ہے کیونکہ اسکا مقصد حکومت پر تنقید برائے تنقید کرنا ہو تا ہے اور اسکا آسان طریقہ یہی ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کو ربر سٹیمپپ کے خطاب سے نواز دیا جائے تا کہ حکومتی فیصلوں کی اخلاقی بنیاد کمزور ہو جائے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ میں پی پی پی کے پاس١٣٠ ممبران ِ اسمبلی ہیں جب کہ اسے سادہ اکثریت کیلئے ١٧٢ ارکان کی حمائت درکار ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ جماعت جس کے پاس سادہ اکثریت نہ ہو وہ پارلیمنٹ کو ربر سٹیمپ کیسے بنا سکتی ہے وہ تو ا پنے ا تحا دیوں کی مشاورت کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی لہذا یہ کہنا کہ یہ پارلیمنٹ ربر سٹیمپ ہے بالکل سفید جھوٹ اور لغو بات ہے۔ ہمیں صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی مفاہمتی پا لیسی کی دادا دینا پڑیگی جس نے نا مساعد حالات میں بھی صبرو تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور نہ ہی کسی چیز کو اپنی انا کا مسئلہ بنایا۔ قومی مفادات پر ساری سیاسی جما عتوں کو آن بورڈ کیا اور انکی رائے کو فوقیت دے کر متفقہ فیصلے کئے جس نے دنیا کو قومی یکجہتی اور اتحاد کا ایسا پیغام دیا جس نے امریکہ جیسی سپر پاور کو بھی حیر ان کر کے رکھ دیا۔
پی پی پی کی موجودہ حکومت شائد پاکستان کی پہلی حکومت ہے جس نے امریکہ کے ساتھ اصولی موقف کی خاطر ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ امریکی سپر میسی سے دنیا کا بچہ بچہ واقف ہے اور کوئی قوم بھی امریکہ سے کسی قسم کا پھڈا مول لینے کیلئے تیار نہیں کیونکہ امریکہ کو چیلنج کرنا خود کو طوفانوں کی نذر کرنے کے مترادف ہے۔پاکستان دفاع، تجارت، اور ٹیکنالوجی میں امریکہ اور یورپ کا دست نگر ہے ۔ امریکی امداد پاکستانی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور پھر پا ک امریکہ تعلقات پچھلی کئی دہائیوں سے بڑے مضبوط رہے ہیں لہذا سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے ردِ عمل میں نیٹو سپلائی کو روکنا کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا لیکن پی پی پی کی حکومت نے یہ مشکل فیصلہ کیا۔ شمسی ائر بیس کو خالی کروانا اور پھر بون کانفرنس کے بائیکاٹ کے فیصلے اتنے بڑے اقدامات تھے جن کی توقع بہت کم لوگوں کو تھی لیکن پی پی پی حکومت نے قومی سلامتی اور اسکے عزت ووقار کے تقدس کی خاطر یہ مشکل فیصلے کئے۔ حکومت پر امریکہ ، نیٹو اور دوسرے ا تحا دیوں کا سخت دبائو تھا کہ پاکستان نیٹو کی سپلائی لائن جلد از جلد بحال کرے لیکن حکومت نے فیصلہ کرنے کی ذمہ داری پارلیمنٹ کے سپرد کر کے سب کو خاموش کروا دیا۔ دفاعِ پاکستان کونسل کی خواہش تھی کہ سپلائی لائن کو جواز بنا کر امریکہ سے سارے تعلقات منقطع کر لئے جائیں اور دھشت گردی کی جنگ میں اسکے اتحادی ہونے کو خیر باد کہہ دیا جائے۔
انھوں نے دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر انکی آواز کو نہ سنا گیا تو ہ پورے ملک میں دھماکوں ، جلسوں ،جلوسوں اور لانگ مارچ کی راہ اپنائیں گئے اور پورے نظام کو الٹ پلٹ کر رکھ دیں گئے۔دفاعِ پاکستان کونسل نو ستاروں والے قومی اتحاد کی جدید شکل ہے جسے پی پی پی سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ انتشار اور بد امنی جس کی سرشت میں ہے۔ اسے تو پی پی پی کا نام سنتے ہی بخار چڑھ جاتا ہے لہذا پی پی پی کے خلاف انکی توپوں کے رخ کو سمجھنا چنداں دشوار نہیں ہے۔ اسکے سب سے فعال راہنما جنرل حمید گل کی پی پی پی کے ساتھ مخاصمت کی بڑی طویل داستان ہے ۔ یہ وہی موصوف ہیں جنھوں نے پی پی پی کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا تھا اور ١٩٨٨ کے انتخابات پر ڈاکہ زنی کی تھی۔ آئی ایس ائی کا چیف ہو نے کے ناطے وہ آئینی طور پر اس بات کے پابند تھے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت سے پر ھیز کریں لیکن انھوں نے یونس حبیب سے فنڈز لے کر اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا اور پھر ان فنڈز کو بے دریغانہ اسلامی جمہوری اتحاد کے راہنمائوں میں تقسیم کیا ۔ انکا یہ اقدام آئینِ پاکستان سے کھلی بغاوت تھی لیکن پاکستان کی کسی عدالت نے نہ تو جنرل حمید گل پر دفعہ چھ کا اطلاق کیا اور نہ ہی انکی سیاسی سرگرمیوں پر ان سے بازپرس کی۔ عدالتِ عظمی کو اگر کچھ نظر آتا ہے تو وہ پی پی پی کے سید یوسف رضا گیلانی ہیں جنھیں توہینِ عدالت کی کاروائی میں بکرا بنا نے کی سازش ہو رہی ہے دیکھئے اس مقدمے کا کیا انجام ہو تا ہے۔ عدالت کے عزائم تو سید یوسف رضا گیلانی کی کھٹیا کھڑی کرنے کے ہیں لیکن کیا وہ ایسا با آسانی کر سکے گی۔عوام پہلے ہی عدالتوں پر جانبداری کے الزامات لگا رہے ہیں اور اس فیصلے کے بعد اس سوچ کو بڑی تقویت ملے گی کہ عدالتیں صرف پی پی پی کی حکومت کا ناطقہ بند کر رہی ہیں جبکہ مخالفین کو کھلی چھٹی ہے۔
ہمارے ہاں ایک روائت بڑی مضبو ط ہوتی جا رہی ہے جس میں ہر چیز کو کفر اور اسلام کی جنگ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے تا کہ عوام کو بیوقوف بنانے میں آسانی رہے۔نیٹو کی سپلائی کو بھی کفر اور اسلام کی ایک جنگ کے طور پر پیش کیا گیاتھا اور مذہبی جماعتوں نے اسلام کی نت نئی تعبیریں کرکے اس میں خوب خوب رنگ بھرے تھے۔انھیں خود بھی علم ہے کہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے اور اسے سیاسی انداز میں ہی حل بھی ہو نا چائیے لیکن اس میں چونکہ امریکہ اور یورپی ممالک شامل تھے لہذا نیٹو سپلائی کفر اور اسلام کی جنگ قرار پائی۔حیران کن بات یہ ہے کہ نیٹو سپلائی پی پی پی کے دورِ حکومت میں شروع نہیں ہوئی اس کا سلسلہ ٢٠٠٢ سے شروع ہوا تھا جب جنرل پرویز مشرف پاکستان کے سیا ہ و سفید کے مالک تھے اور خیبر پختون خواہ میں ایم ایم اے کی حکومت تھی۔اس وقت نیٹو سپلائی نہ تو کفر و اسلام کی جنگ تھی اور نہ ہی اسے جاری رکھنا افغانیوں کے ساتھ نا انصافی کے زمرے میں آتا تھا۔ اس وقت جماعت اسلامی نے بھی منہ میں کنگھنیاں ڈالی ہو ئی تھیں اور جمعیت العلمائے اسلام بھی اقتدار کی گنگا میں بے سدھ اشنان کر رہی تھی لہذا نیٹو سپلائی کی بندش کا کسے خیال سوجھ سکتا تھا۔ پی پی پی کی حکومت کا آنا تھا کہ نیٹو سپلائی کفر اور اسلام کی جنگ بن گئی اور پی پی پی کی حکومت امریکن ایجنٹ ٹہری۔
جس زمانے میں ایم ایم اے خودد اس کارِ خیر میں شامل تھی نہ اسلام کو خطرہ تھا اور نہ ہی ملکی سلامتی کسی انجانے طوفانوں کی زد میں تھی راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا تھا ۔ میٹھا میٹھا ہبپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔ مذہبی پیشوائیت کی یہی وہ مفاد پرستانہ اور دو رنگی سوچ ہے جس نے اسے کہیں کا نہیں چھو ڑا۔ عوام کی ان سے دوری کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عوام کو اسلام سے دلچسپی نہیں ہے۔ عوام تو اسلام سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں لیکن جس طرح کا اسلام مذہبی پیشوائیت پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ انھیں قبول نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی پیشوائت ہمیشہ انتخابا ت میں شکستِ فاش سے دوچار ہو تی ہے۔
دفاعِ پاکستان کونسل نے نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف بڑی بھڑکیں ماری تھیں اب مزہ تو تب ہے کہ اپنی بھڑکوں پر پہرہ دیں اور جس چیز کو وہ ملکی سلامتی کے منافی سمجھتے ہیں اس کیلئے اپنی اعلان کردہ راہ پر ثابت قدمی سے ڈٹ جائیں لیکن وہ ایسا نہیں کریں گئے کیونکہ ان کے سارے اقدامات خفیہ ہاتھوں کے اشاروں کے محتاج ہوتے ہیں اور جو افراد اور جما عتیں اشاروں پر عمل در آمد کے خو گر ہوں ان سے کسی جرات مندانہ موقف کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں ر ہنے کے مترادف ہو تا ہے۔ دفاعِ پاکستان کونسل کو اوپر سے اشارہ ہو جائے گا اور وہ راہِ فرار کا نیا جواز تلاش کر لیں گئے۔ ان کے لیے نیا سوانگ بھرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ وہ ایک چہرے پر کئی چہرے سجانے میں بڑے ماہر ہیں۔ انھوں نے ریا ست کے اندر ریاست بنانے اور پارلیمنٹ کو یرغمال رکھنے کی جس مہلک سوچ کا مظاہرہ کیا تھا پی پی پی کی حکومت نے اسے اپنی سیاسی حکمتِ عمل سے کچل کر رکھ دیاہے ۔ اب وہ شکست خوردہ ہیں اور اپنے زخم چاٹ رہے ہیں ۔ دفاعِ پاکستان کونسل جس بری طرح سے پٹی ہے اس نے اس جماعت کا سیاسی مستقبل بالکل ملیا میٹ کر کے رکھ دیا ہے ۔د یکھتے ہیں اب وہ کون سی نئی چال چلتے ہیں جو ان کی ڈو بتی کشتی کو بچانے میں ممد و معا ون ثابت ہو سکے۔
تحریر : طارق حسین بٹ (چیرمین پاکستان پیپلز ادبی فورم یو اے ای)